ناک کے ذریعے بچے کے پیٹ میں دودھ چلا گیا، تو رضاعت کا ثبوت
ریفرینس نمبر: 62
تاریخ اجراء:10 شوال المکرَّم 1445 ھ بمطابق 19 اپریل 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
اگر مدتِ رضاعت میں ناک کے ذریعے بچے کے پیٹ میں عورت کا دودھ پہنچا ، تو کیا اس کی وجہ سے بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں رضاعت کا رشتہ ثابت ہو جائے گا اور وہ عورت اس بچے کی رضاعی والدہ بن جائے گی ، اس وجہ سے کہ جس طرح معروف طریقے کے مطابق دودھ پینے سے رضاعت کا رشتہ ثابت ہو جاتا ہے ، ایسے ہی اگر حلق یا ناک میں کسی عورت کا دودھ ٹپکایا گیا اور دودھ بچے کے پیٹ میں چلا گیا ، تو بھی رضاعت کا رشتہ ثابت ہو جاتا ہے ۔
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ” جعل الوجور و السعوط ملحقین بالمص ” ترجمہ : حلق میں دوا کے طور پر دودھ ٹپکانے یا ناک میں ٹپکانے کو چسکی لینے کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے ۔ (رد المحتار ، ج 4 ، ص 387 ، مطبوعہ پشاور)
“ تکون المرضعۃ آدمیۃ و الراضع فی مدۃ الرضاع و سواء وصل اللبن الی جوف الطفل من ثدی او مسعط او غیرہ ” ترجمہ : دودھ پلانے والی عورت ہو اور دودھ پینے والا مدتِ رضاعت میں ہو نیز رضاعت کے ثبوت کے لئے برابر ہے کہ دودھ عورت کی چھاتی کے ذریعے معروف طریقے سے بچے کے پیٹ میں پہنچا ہو یا ناک وغیرہ میں ٹپکانے کے ذریعے پیٹ میں پہنچا ہو ۔ (الجوھرۃ النیرۃ ، ج 2 ، ص 92 ، مطبوعہ کراچی)
صدر الشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ” رضاع (یعنی دودھ کا رشتہ) عورت کا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور دودھ پینے سے مراد یہی معروف طریقہ نہیں ، بلکہ اگر حلق یا ناک میں ٹپکایا گیا ، جب بھی یہی حکم ہے ۔” (بہارِ شریعت ، ج 2 ، حصہ 7 ، ص 36 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
سیرت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ میں یہ بات درج ہے کہ ” ایک سائل نے امامِ اہلسنت مجددِ دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے سوال کیا کہ اگر بچے کی ناک میں دودھ چڑھ کر حلق میں اتر جائے ، تو رضاعت ثابت ہو گی یا نہیں ؟ آپ علیہ الرحمۃ نے جواب دیا : ” منہ یا ناک سے عورت کا دودھ بچے کے جوف (پیٹ) میں پہنچے گا حرمتِ رضاعت لائے گا۔ “
اور (امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے) یہ فرمایا : یہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان 1286ھ 1869ء میں اس فقیر نے لکھا اور اسی چودہ شعبان میں منصبِ افتاء عطا ہوا اور اسی تاریخ سے بحمد اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت 10شوال المکرم 1272ھ بروزشنبہ (ہفتہ) وقتِ ظہر مطابق 14 جون 11 جیٹھ سدی 1913ء سمبت بکرمی ، تو منصبِ افتاء ملنے کے وقت فقیر کی عمر 13 برس 10 مہینے 4 دن کی تھی ، جب سے اب تک برابر یہی خدمتِ دین جاری ہے و الحمد للہ۔ ” (سیرتِ اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان ، ص 48 ، مطبوعہ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
