کتنے تولہ سونا ہو، تو زکوٰۃ فرض ہوتی ہے ؟
ریفرینس نمبر: 26
تاریخ اجراء:11 شعبان المعظم 1445 ھ بمطابق 22 فرورى 2024 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
: کون کون سے مال پرزکوٰۃ فرض ہوتی ہے؟ نیز اگر کسی کے پاس تین تولہ سونا ہو، تو کیا اس پر بھی زکوٰۃفرض ہو گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)زکوۃ تین طرح کے اموال پر فرض ہوتی ہے:
(١) ثمنِ خلقی و اصطلاحی (یعنی سونا چاندی، روپیہ پیسہ، پرائز بانڈ، کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو۔)
(٢) مالِ تجارت (وہ چیز جو بیچنے کی نیت سے خریدی گئی ہو اور اس کے بیچنےکی نیت برقرار ہو۔)
(٣)سائمہ جانور (ایسے اونٹ، گائے، بکری وغیرہ جو سال کا اکثر حصہ مفت کی چراگاہ سے چر کر گزارا کرتے ہوں اور ان سے مقصود صرف دودھ اور بچے لینا یا فربہ کرنا ہو۔)
(2) پھر اگر کسی کے پاس فقط سونا ہو، اس کے علاوہ سونے کی ہم جنس نصاب (یعنی چاندی، روپیہ پیسہ، پرائز بانڈ، مالِ تجارت وغیرہ ) میں سے کوئی اور مالِ زکوۃ نہ ہو، تو جب تک سونا وزن کے اعتبار سے ’’ساڑھے سات (7.5) تولہ‘‘ مکمل نہ ہو، اس پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔
(3) اگر سونے کے ساتھ ہم جنسِ نصاب (مثلاً چاندی، روپیہ پیسہ، پرائز بانڈ یا مالِ تجارت وغیرہ) میں سے کوئی چیز مل جائے یا چاندی، نقدی، پرائز بانڈ، مالِ تجارت وغیرہ تنہا یا اپنی ہم نصاب چیزوں کے ساتھ مل جائیں، تو ان پر فرضیتِ زکوۃ کا نصاب ’’ساڑھے باون (52.5) تولے چاندی کی مالیت‘‘ ہوتی ہے۔
اس تفصیل کے بعد پوچھی گئی صورت کا جوا ب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس اموالِ زکوۃ میں سے فقط تین تولہ سونا ہے اور حاجت سے زائد مال اگر اموالِ زکوۃ میں سے ہے، مثلاً کچھ رقم یا مالِ تجارت وغیرہ ، تو اب اسے سونے کے ساتھ ملا کر چاندی کے نصاب کے مطابق دیکھا جائے گا، اگر نصاب مکمل ہوا، تو دیگر شرائط کی موجودگی میں اس پر زکوۃ فرض ہو جائے گی۔
البتہ اگر حاجت سے زائد مال اموالِ زکوۃ میں سے نہیں ہے، تو فقط تین تولہ پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔
زکوۃ نکالنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن زکوۃ کا سال پورا ہو ،اس دن آپ اپنے پاس موجود اموالِ زکوۃ مثلاً سونے، چاندی وغیرہ کی مارکیٹ ویلیو نکال کر اس کے ساتھ نقدی اور دیگر مالِ زکوۃ (اگر ہوں تو، ان )کی قیمت بھی ملا لیں، پھر اس کل رقم کو چالیس پہ تقسیم کر دیں، حاصلِ جواب زکوۃ کی رقم ہو گی۔
مثلاً ایک لاکھ کی زکوۃ کا نکالنے کا طریقہ یہ ہے۔
100000÷40 = 2500
نوٹ :کئی افراد کواکثر اوقات خود سے زکوٰۃ کا حساب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن زکوٰۃ کے مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے زکوٰۃ کا درست حساب نہیں کر پاتے اور یوں زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے اور گناہ گار ہوتے ہیں، لہٰذا ہر فرد کو چاہیے کہ اپنے سارے مال کی زکوٰۃ کا درست حساب کروانے کے لیے باقاعدہ کسی سنی مفتی صاحب کے پاس جا کر حساب کروا لیا جائے ۔
اپنی زکوٰۃ کا حساب کروانے کے لیے آپ ان نمبرز پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
0314-2562692, 0312-0152243, 0334-5305253
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


