رمضان سے پہلے صدقۂ فطر دینا
ریفرینس نمبر: 99
تاریخ اجراء:25 رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 26 مارچ 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
کیا رمضان المبارک سے بھی پہلے صدقۂ فطر دے سکتے ہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رمضان سے پہلے بھی صدقہ فطر دے سکتے ہیں، جبکہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کیا جارہا ہے۔
محیط برہانی میں ہے’’یجوز تعجیلھا قبل یوم الفطر بیوم او یومین فی روایۃ الکرخی وعن ابی حنیفۃ لسنۃ او سنتین ‘‘ ترجمہ:امام کرخی رحمہ اللہ کے نزدیک صدقۂ فطر ،عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا ، جائز ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایک یا دو سال پہلے ادا کرنا ، جائز ہے۔ (محیط برهانی،ج2،ص 589،مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:” فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے ،جب کہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا، پھر ہوگیا، تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔“ (بھار شریعت، ج01، حصہ5، ص940، مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)
رمضان سے پہلےبھی صدقہ فطر دے سکتے ہیں ، جبکہ وہ شخص موجودہو،جس کی طرف سے اداکیاجارہاہے۔
محیط برہانی میں ہے’’یجوز تعجیلھا قبل یوم الفطر بیوم او یومین فی روایۃ الکرخی وعن ابی حنیفۃ لسنۃ او سنتین ‘‘ ترجمہ:امام کرخی رحمہ اللہ کے نزدیک صدقۂ فطر ،عید سے ایک یا دو دن پہلے ادا کرنا ، جائز ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایک یا دو سال پہلے ادا کرنا ، جائز ہے۔ (محیط برهانی،ج2،ص 589،مطبوعہ کوئٹہ)
بہار شریعت میں ہے:” فطرہ کا مقدم کرنا مطلقاً جائز ہے ،جب کہ وہ شخص موجود ہو، جس کی طرف سے ادا کرتا ہو اگرچہ رمضان سے پیشتر ادا کر دے اور اگر فطرہ ادا کرتے وقت مالک نصاب نہ تھا، پھر ہوگیا، تو فطرہ صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ عید کی صبح صادق ہونے کے بعد اور عید گاہ جانے سے پہلے ادا کر دے۔“ (بھار شریعت،ج01،حصہ 5،ص940، مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


