سادات و بنوہاشم کا ایک دوسرے کو زکوٰۃ دینا کیسا ؟
ریفرینس نمبر: 44
تاریخ اجراء:14 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 25 مارچ 2024 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
کسی سید یا ہاشمی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ، لیکن کیا کوئی سید کسی ضرورت مند سید کو یا ہاشمی کسی ضرورت مند ہاشمی کو بھی زکوٰۃ نہیں دے سکتا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعی حکم یہ ہے کہ ساداتِ کرام اور بنو ہاشم کو زکوٰۃ و فطرانہ وغیرہ کوئی صدقہ واجبہ نہیں دیا جا سکتا نیز جس طرح کوئی اور انہیں زکوٰۃ و صدقہ واجبہ نہیں دے سکتا ، اسی طرح یہ حضرات آپس میں بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ وغیرہ صدقہ واجبہ نہیں دے سکتے۔
وضاحت : بنو ہاشم سے مراد پانچ خاندان ہیں:آلِ علی،آلِ عباس ، آلِ جعفر ، آلِ عقیل ، آلِ حارث بن عبدالمطلب۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لآل محمد“ ترجمہ :يہ صدقات لوگوں کے ميل ہی ہيں ، نہ يہ محمد (صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) کو حلال ہيں اور نہ آلِ محمد کو حلال ہیں ۔ (صحيح مسلم ، ص 387 ، حديث نمبر : 169)
فتاوی عالمگیری میں ہے :” و لا يدفع إلى بني هاشم ، وهم آل علی وآل عباس و آل جعفر و آل عقيل و آل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية “ ترجمہ : بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور بنو ہاشم سے مراد آلِ علی ، آلِ عباس ، آلِ جعفر ، آلِ عقیل اور آلِ حارث بن عبد المطلب ہیں جیسا کہ ہدایہ میں مذکور ہے ۔ (فتاوی عالمگیری، ج 01، ص 189، مطبوعہ پشاور)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : ” زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے ، جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذاہبِ اربعہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج 10، ص99، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ ” زکوٰۃ احوج (زیادہ حاجتمند) کو دینا اولیٰ ہے ، خصوصاً جو احوج اپنا قریب ہو . یہ حکم مطلق ہے مثلاً بنو ہاشم اپنے قریبی حاجتمند رشتہ داروں کو زکوٰۃ دیں یا یہ بنو ہاشم اس حکم میں شامل نہیں ؟ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ” بیشک زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دینا افضل اور دو چند اجر کا باعث ہے ۔۔۔۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ وہ صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو ، زکوٰۃ کے لئے شریعتِ مطہرہ نے مصارف معین فرما دئیے ہیں اور جن جن کو دینا جائز ہے ، صاف بتادئیے ، اس کے رشتہ داروں میں وہ لوگ جنہیں دینے سے ممانعت ہے ، ہرگز استحقاق نہیں رکھتے ، نہ اُن کے دئیے زکوٰۃ ادا ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹے کو دینا ، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعتِ مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحۃً مستثنیٰ فرما لیا ہے اور بیشک نصوص مطلق ہیں ۔۔۔۔ تو بیشک حکمِ احادیث ہاشمیوں پر مطلق زکوٰۃ کی تحریم ہے ، خواہ ہاشمی کی ہو یا غیر ہاشمی کی اور یہی مذہب امام کا ہے اور یہی اُن سے ظاہر الروایۃ اور اسی پر متون ، تو یہی معتمد ہے ۔“ (ملخص از فتاوٰی رضویہ، ج10، ص289 تا 286، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے : ” بنی ہاشم کو زکاۃ نہیں دے سکتے ۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مُراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔“ (بھار شریعت ، ج 01، ص 931 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
ضروری تنبیہ : اہل اسلام کی کوشش ہونی چاہئے کہ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ دیگر اموال سے سادات و بنو ہاشم کی مدد کیا کریں اور اسے اپنے لئے باعث شرف سمجھیں کہ یہ بڑی سعادت کی بات ہے ۔ البتہ اگر زکوٰۃ یا صدقہ واجبہ کے علاوہ مال نہ ہو اور خدمت کرنا بھی ضروری ہو ، تو اس صورت سادات کرام و بنو ہاشم کی خدمت کرنے کا یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے کہ اپنی زکوٰۃ کا کسی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ کو مالک بنا دیں اور اسے گزارش کر دیں کہ آپ یہ رقم سید صاحب یا فلاں فرد بنی ہاشم کی خدمت میں پیش کر دیں۔
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اسی حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ” متوسط حال والے اگر مصارفِ مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے ، تو بحمد ﷲ وہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے ، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے ، پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونوں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اوریہ جو سید نے پایا نذرانہ تھا ، اس کا فرض ادا ہو گیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا ۔“ (فتاوٰی رضویہ، ج10، ص106 تا 105 ، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
شرعی حکم یہ ہے کہ ساداتِ کرام اور بنو ہاشم کو زکوٰۃ و فطرانہ وغیرہ کوئی صدقہ واجبہ نہیں دیا جا سکتا نیز جس طرح کوئی اور انہیں زکوٰۃ و صدقہ واجبہ نہیں دے سکتا ، اسی طرح یہ حضرات آپس میں بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ وغیرہ صدقہ واجبہ نہیں دے سکتے .
وضاحت : بنو ہاشم سے مراد پانچ خاندان ہیں:آلِ علی،آلِ عباس ، آلِ جعفر ، آلِ عقیل ، آلِ حارث بن عبدالمطلب۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” ان ھذہ الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لآل محمد“ ترجمہ :يہ صدقات لوگوں کے ميل ہی ہيں ، نہ يہ محمد (صلی اللہ علیہ و الہ و سلم) کو حلال ہيں اور نہ آلِ محمد کو حلال ہیں ۔ (صحيح مسلم ، ص 387 ، حديث نمبر : 169)
فتاوی عالمگیری میں ہے :” و لا يدفع إلى بني هاشم ، وهم آل علی وآل عباس و آل جعفر و آل عقيل و آل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية “ ترجمہ : بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں اور بنو ہاشم سے مراد آلِ علی ، آلِ عباس ، آلِ جعفر ، آلِ عقیل اور آلِ حارث بن عبد المطلب ہیں جیسا کہ ہدایہ میں مذکور ہے ۔ (فتاوی عالمگیری ، ج 01 ، ص 189 ، مطبوعہ پشاور)
فتاویٰ رضویہ میں ہے : ” زکوٰۃ ساداتِ کرام و سائرِ بنی ہاشم پر حرامِ قطعی ہے ، جس کی حرمت پر ہمارے ائمہ ثلٰثہ بلکہ ائمہ مذاہبِ اربعہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کا اجماع قائم۔“ (فتاوٰی رضویہ ، ج 10 ، ص 99 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ ” زکوٰۃ احوج (زیادہ حاجتمند) کو دینا اولیٰ ہے ، خصوصاً جو احوج اپنا قریب ہو . یہ حکم مطلق ہے مثلاً بنو ہاشم اپنے قریبی حاجتمند رشتہ داروں کو زکوٰۃ دیں یا یہ بنو ہاشم اس حکم میں شامل نہیں ؟ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ” بیشک زکوٰۃ اور سب صدقات اپنے عزیزوں قریبوں کو دینا افضل اور دو چند اجر کا باعث ہے ۔۔۔۔ مگر یہ اسی صورت میں ہے کہ وہ صدقہ اس کے قریبوں کو جائز ہو ، زکوٰۃ کے لئے شریعتِ مطہرہ نے مصارف معین فرما دئیے ہیں اور جن جن کو دینا جائز ہے ، صاف بتادئیے ، اس کے رشتہ داروں میں وہ لوگ جنہیں دینے سے ممانعت ہے ، ہرگز استحقاق نہیں رکھتے ، نہ اُن کے دئیے زکوٰۃ ادا ہو جیسے اپنے غنی بھائی یا فقیر بیٹے کو دینا ، یونہی اپنا قریب ہاشمی کہ شریعتِ مطہرہ نے بنی ہاشم کو صراحۃً مستثنیٰ فرما لیا ہے اور بیشک نصوص مطلق ہیں ۔۔۔۔ تو بیشک حکمِ احادیث ہاشمیوں پر مطلق زکوٰۃ کی تحریم ہے ، خواہ ہاشمی کی ہو یا غیر ہاشمی کی اور یہی مذہب امام کا ہے اور یہی اُن سے ظاہر الروایۃ اور اسی پر متون ، تو یہی معتمد ہے ۔“ (ملخص از فتاوٰی رضویہ ، ج 10 ، ص 289 تا 286 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
بہارِ شریعت میں ہے : ” بنی ہاشم کو زکاۃ نہیں دے سکتے ۔ نہ غیر انھیں دے سکے، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔ بنی ہاشم سے مُراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔“ (بھار شریعت ، ج 01 ، ص 931 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
ضروری تنبیہ : اہل اسلام کی کوشش ہونی چاہئے کہ زکوٰۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ دیگر اموال سے سادات و بنو ہاشم کی مدد کیا کریں اور اسے اپنے لئے باعث شرف سمجھیں کہ یہ بڑی سعادت کی بات ہے ۔ البتہ اگر زکوٰۃ یا صدقہ واجبہ کے علاوہ مال نہ ہو اور خدمت کرنا بھی ضروری ہو ، تو اس صورت سادات کرام و بنو ہاشم کی خدمت کرنے کا یہ طریقہ اپنایا جا سکتا ہے کہ اپنی زکوٰۃ کا کسی شرعی فقیر مستحقِ زکوٰۃ کو مالک بنا دیں اور اسے گزارش کر دیں کہ آپ یہ رقم سید صاحب یا فلاں فرد بنی ہاشم کی خدمت میں پیش کر دیں۔
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اسی حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ” متوسط حال والے اگر مصارفِ مستحبہ کی وسعت نہیں دیکھتے ، تو بحمد ﷲ وہ تدبیر ممکن ہے کہ زکوٰۃ کی زکوٰۃ ادا ہو اور خدمتِ سادات بھی بجا ہو یعنی کسی مسلمان مصرفِ زکوٰۃ معتمد علیہ کو کہ اس کی بات سے نہ پھرے ، مالِ زکوٰۃ سے کچھ روپے بہ نیتِ زکوٰۃ دے کر مالک کردے ، پھر اس سے کہے تم اپنے طرف سے فلاں سیّد کی نذر کر دو اس میں دونوں مقصود حاصل ہو جائیں گے کہ زکوٰۃ تو اس فقیر کو گئی اوریہ جو سید نے پایا نذرانہ تھا ، اس کا فرض ادا ہو گیا اور خدمتِ سیّد کا کامل ثواب اسے اور فقیر دونوں کو ملا ۔“ (فتاوٰی رضویہ ، ج 10 ، ص 106 تا 105 ، رضافاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


