ساس / سسر کو زکوٰۃ دینے کا حکم ؟

ساس / سسر کو زکوٰۃ دینے کا حکم ؟

ریفرینس نمبر: 89

تاریخ اجراء:15 رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 16 مارچ 2025 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

کیا اپنی ساس یا سسر کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

ساس یا سسر کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں ، جبکہ وہ مستحقِ زکوٰۃ ہوں۔  اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ شرعی اصول کے مطابق اپنے اصول (آباء و اجداد جیسے ماں باپ ، دادا دادی ، نانا نانی وغیرہ اوپر تک)  ، فروع (اپنی اولاد جیسے بیٹا بیٹی ، پوتا پوتی ، نواسہ نسواسی وغیرہ نیچے تک) ، اپنی بیوی یا شوہر کے علاوہ ہر رشتہ دار کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ، بشرطیکہ وہ مستحقِ زکوٰۃ ہو۔ پوچھی گئی صورت میں جبکہ ساس یا سسر شرعی فقیر ہوں اور سادات و بنو ہاشم میں سے نہ ہوں ، تو اُن کو اپنی زکوٰۃ دینا جائز ہے ، اس وجہ سے کہ ان کے ساتھ مذکورہ بالا رشتوں میں سے کوئی رشتہ ثابت نہیں کہ جنہیں زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔

جن کے درمیان ولادت یا زوجیت کا رشتہ ہو ، وہ ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ درمختار میں ہے : ” و لا الی من بینھما ولاد ۔۔۔۔ او بینھما زوجیۃ ” ترجمہ : جن کے درمیان ولادت یا زوجیت کا رشتہ ہو ، وہ ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔   (در مختار، جلد3، صفحہ 344 تا 345، مطبوعہ کوئٹہ)

اس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : “وقید بالولاد لجوازہ لبقیۃ الاقارب” ترجمہ : رشتۂ ولادت کی قید لگائی ، کیونکہ ان کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا جائز ہے۔   (ردالمحتار ، جلد3 ، صفحہ 344 ، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم