ایمان و کفر کا معنیٰ و مفہوم
ریفرینس نمبر: 06
تاریخ اجراء:10 جمادی الاولیٰ 1445 ھ بمطابق 24 نومبر 2023 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
ایمان کسے کہتے ہیں ؟ اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ کفر سے کیا مراد ہے؟ ان کے معانی کی وضاحت کر دیجئے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایمان و کفر کا لغوی معنیٰ و مفہوم:
ایمان عربی زبان کا لفظ ہے اور علمی و فنی اعتبار سے ایمان کا مادہ اشتقاق (حروفِ اصلیہ) ” امن “ ہے اور ایمان بابِ افعال کا مصدر ہے۔ اور لغت کے لحاظ سے” کسی بات کو مان لینے اور اس کی تصدیق کرنے، کسی کو امن دینے یا کسی کی اطاعت کرنے“ کو ایمان کہتے ہیں۔ (المنجد، ص37،مطبوعہ لاھور)
اورکفر کا لغوی معنیٰ ہے: ”کسی چیز کو جھٹلانایا کسی چیز کو چھپانا، ناشکری کرنا“ (المنجد، ص760،مطبوعہ لاھور)
ایمان و کفر کا شرعی و اصطلاحی معنیٰ و مفہوم:
اور اصطلاحِ شرع میں ایمان کا معنیٰ یہ ہے کہ بندہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے کہ جو ضروریاتِ دین میں سے ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو اور ایمان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم تک پہنچائی ہیں اور ان باتوں کو ضروریاتِ دین میں سے ہونا معلوم ہو، تو ان سب باتوں کی تصدیق کرنا ایمان کہلاتا ہے اور ان میں سے کسی ایک بات کو بھی جھٹلانا کفر کہلاتا ہے۔
شرح عقائدِ نسفیہ میں ہے: ”(التصدیق بما جاء بہ من عند اللہ تعالیٰ ) ای تصدیق النبی علیہ السلام بالقلب فی جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عند اللہ تعالیٰ “ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آئے، اس کا دینی ضروری بات ہونا معلوم ہو، ہر اس بات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تصدیق کرنا ایمان کہلاتا ہے۔ (شرح العقائد النسفیہ، ص276، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
التوحید للماتریدی میں ہے: ”الکفر ضد الایمان“ ترجمہ: کفر ایمان کی ضد (متضاد چیز) ہے۔ (التوحید للماتریدی، ص375، دار الجامعات المصریۃ)
مجدد اعظم امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ کو ہربات میں سچا جانے ، حضور کی حقانیت کو صدقِ دل سے ماننا ایمان ہے ،جو اس کا مقر (یعنی اقرار کرنے والا) ہو، اسے مسلمان جانیں گے ، جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول (عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا انکار یا تکذِیب (یعنی جُھٹلانا) یا توہین نہ پائی جائے ۔ (فتاوٰی رضویہ، ج29، ص254، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
صدر الشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ’’ ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔‘‘ (بھارِ شریعت، ج1، حصّہ1، ص172، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
ضروریاتِ دین کی وضاحت :
ضروریاتِ دین ، اسلام کے وہ احکام ہیں، جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں جیسے اللہ عزوجل کی کا ایک ہونا، انبِیائے کرام علیہم السلام کی نبوت، نماز، روزے ، حج کی فرضیت ، جنَّت، دوزخ ، قیامت میں اُٹھایا جانا ، حساب و کتاب لینا وغیرھا ۔مثلاًیہ عقیدہ رکھنابھی ضروریاتِ دین میں سے ہے کہ حُضُور صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبیین یعنی آخری نبی ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہاں خواص سے مراد علمائے کرام ہیں اور عوام سے مراد وہ مُسلمان ہیں کہ جو علمائے کرام کے طبقہ میں شمار نہ کئے جاتے ہوں،مگرعلماء کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعلمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں ۔ وہ لوگ مراد نہیں کہ جو دُور دراز جنگلوں، پہاڑوں میں رہنے والے ہوں،جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضرور یا تِ دین سے ناواقِف ہونا اِس دینی ضروری کو غیرضروری نہ کردے گا۔ البتہ ایسے لوگوں کےمسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریا تِ دین کاانکار کرنے والےنہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ۔ ان سب پر اِجمالی طور پرایمان لائے ہو۔ (ماخوذ از کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص12 تا13 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


