افضلیتِ صدیقِ اكبر کے منکر کا حکم

افضلیتِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے منکر کا حکم

ریفرینس نمبر: 15

تاریخ اجراء:21جمادى الاخرى 1445 ھ بمطابق 04 جنورى 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

 اگر کوئی شخص  حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے افضل مانے، تو اس پر کیا حکمِ شرعی عائد ہو گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 اہلسنت وجماعت کا اجماعی و قطعی  عقیدہ ہے کہ  انبیاء و مرسلین علیہم السلام  کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس عقیدے پرکثیر احادیثِ مبارکہ  ،  آثارِ صحابہ اور علماء و صوفیاء کے اقوال   موجود ہیں  نیز اہلبیتِ اطہار کا بھی یہی موقف ہے، بلکہ  حضرت سیدنا مولا  علی  المرتضیٰ کرم  اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما  پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے سزا کی روایت منقول ہے  اور جو شخص اس اجماعی عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھے، وہ شخص اہلسنت  و جماعت سے خارج اور بدعتی و گمراہ ہے۔

رسول  پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ‘‘ ترجمہ: کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔‘‘   ( جامع ترمذی، ج 2، ص 208، مطبوعہ کراچی)

اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’ وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة‘‘ ترجمہ: اس حدیث میں دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام سے افضل ہیں، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا۔‘‘   ( مرقاۃ المفاتیح، ج 11، ص 182، مطبوعہ  کوئٹہ)

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا  : ’’يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر‘‘ ترجمہ: اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے  ہو کہ جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر نہ سورج طلوع ہوا، نہ ہی غروب ہوا  کہ جو ابوبکر سے افضل ہو۔   (تاریخ دمشق لابن عساکر، ج 30 ، ص 209 ، دار الفکر، بیروت)

حضرت مولاعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت  محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’قلت لابی ای الناس خیربعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟ قال ابوبکر قلت ثم من؟ قال عمر“ترجمہ:میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔ میں نے کہا پھرکون افضل ہیں؟ توآپ نے جواب دیاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں۔   (صحیح البخاری،ج1، ص518، مطبوعہ کراچی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں:”کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر وعمر وعثمان و یسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلا ینکرہ“ ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر ، پھرحضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اورآپ انکار نہ فرماتے۔    (المعجم الکبیر، ج12،ص285،مکتبۃ العلوم و الحکم ، الموصل)

صحابہ کرام و تابعین عظام  کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا  جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”الافضل بعد الانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک“ ترجمہ: انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعدابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پراتفاق کیا۔امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پرصحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا۔   (ارشادالساری ،ج8، ص147، دارالکتب العلمیہ، بیروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر‘‘ ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔  (تھذیب الاسماء و اللغات، ج1، ص15، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق   حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتری‘‘ ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا۔   (تاریخ دمشق لابن عساکر، ج30، ص383، دارالفکر، بیروت)

جو شخص اس اجماعی عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھے، وہ شخص اہلسنت  و جماعت سے خارج اور بدعتی و گمراہ ہے۔” ان فضل علیا رضی اللہ عنہ علیھما فمبتدع “ ترجمہ:اگر کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر فضیلت  دے ، وہ   گمراہ و بدعتی ہے۔   (الاشباہ والنظائر، ص159، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

مجمع الانہر میں ہے: ”ان فضل علیا فھو مبتدع  و ان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر“  ترجمہ: اگر کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر فضیلت  دے، وہ   گمراہ و بدعتی ہے اور اگر صدیق اکبر رضی اللہ  عنہ کی خلافت کا انکار کرے، تو کافر ہے۔    (مجمع الانھر، ج ص108،  دار احیاء التراث العربی ، بیروت)

 نوٹ :  اس مسئلے پر تفصیلی دلائل پڑھنے کے لئے  امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی کتاب ” مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین “ کا مطالعہ فرمائیں ۔

 اہلسنت وجماعت کا اجماعی و قطعی  عقیدہ ہے کہ  انبیاء و مرسلین علیہم السلام  کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس عقیدے پرکثیر احادیثِ مبارکہ  ،  آثارِ صحابہ اور علماء و صوفیاء کے اقوال   موجود ہیں  نیز اہلبیتِ اطہار کا بھی یہی موقف ہے، بلکہ  حضرت سیدنا مولا  علی  المرتضیٰ کرم  اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما  پر فضیلت دینے والے سے متعلق آپ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے سزا کی روایت منقول ہے  اور جو شخص اس اجماعی عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھے، وہ شخص اہلسنت  و جماعت سے خارج اور بدعتی و گمراہ ہے۔

رسول  پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لا ینبغی لقوم فیھم ابو بکر ان یؤمھم غیرہ‘‘ ترجمہ: کسی قوم کو زیب نہیں دیتا کہ ابو بکر کی موجودگی میں کوئی اور امامت کرے ۔‘‘   ( جامع ترمذی، ج 2، ص 208، مطبوعہ کراچی)

اس کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے: ’’ وفيه دليل على انه افضل جميع الصحابة، فاذا ثبت هذا فقد ثبت استحقاق الخلافة‘‘ ترجمہ: اس حدیث میں دلیل ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جمیع صحابہ کرام سے افضل ہیں، پھر جب افضلیت ثابت ہو گئی، تو خلافت کا حقدار ہونا بھی ثابت ہو گیا۔‘‘   ( مرقاۃ المفاتیح، ج 11، ص 182، مطبوعہ  کوئٹہ)

نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آگے چلتے ہوئے دیکھا ، تو ارشاد فرمایا  : ’’يا أبا الدرداء أتمشي أمام من هو خير منك في الدنيا والآخرة ما طلعت الشمس ولا غربت على أحد بعد النبيين والمرسلين أفضل من أبي بكر‘‘ ترجمہ : اے ابودرداء ! کیا تم ایسے شخص کے آگے چل رہے  ہو کہ جو دنیا و آخرت میں تم سے بہتر ہے ۔ انبیاء و مرسلین کے علاوہ کسی بھی ایسے شخص پر نہ سورج طلوع ہوا، نہ ہی غروب ہوا  کہ جو ابوبکر سے افضل ہو۔   (تاریخ دمشق لابن عساکر، ج 30 ، ص 209 ، دار الفکر، بیروت)

حضرت مولاعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت  محمدبن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’قلت لابی ای الناس خیربعد النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ? قال ابوبکر قلت ثم من? قال عمر“ترجمہ:میں نے اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔ میں نے کہا پھرکون افضل ہیں؟ توآپ نے جواب دیاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ افضل ہیں۔   (صحیح البخاری،ج1، ص518، مطبوعہ کراچی)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں:”کنا نقول ورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم حی افضل ھذہ الامة بعد نبیھا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ابو بکر وعمر وعثمان و یسمع ذلک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فلا ینکرہ“ ترجمہ: ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں کہا کرتے تھے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر ، پھرحضرت عمر ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین افضل ہیں، پس یہ بات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سنتے اورآپ انکار نہ فرماتے۔    (المعجم الکبیر، ج12،ص285،مکتبۃ العلوم و الحکم ، الموصل)

صحابہ کرام و تابعین عظام  کا افضلیتِ ابوبکر صدیق رضی اللہ پر اجماع تھا  جیسا کہ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”الافضل بعد الانبیاء علیھم الصلوة والسلام ابوبکررضی اللہ تعالی عنہ وقداطبق السلف علی انہ افضل الامة حکی الشافعی وغیرہ اجماع الصحابة والتابعین علی ذلک“ ترجمہ: انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام کے بعدابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل ہیں اور سلف نے ان کے افضل الامت ہونے پراتفاق کیا۔امام شافعی وغیرہ نے اس مسئلہ پرصحابہ اورتابعین کااجماع نقل کیا۔   (ارشادالساری ،ج8،ص147، دارالکتب العلمیہ،بیروت)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’وأجمع أهل السُنة على أن أفضلهم على الإطلاق أبو بكر، ثم عمر‘‘ ترجمہ : اہلسنت و جماعت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ میں علی الاطلاق سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں ۔   (تھذیب الاسماء و اللغات ، ج 1 ، ص 15، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دینے والے سے متعلق   حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’من فضلني على أبي بكر وعمر جلدتهم حد المفتری‘‘ ترجمہ : جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دے گا ، میں اسے الزام لگانے والے کی سزا دوں گا ۔   ( تاریخ دمشق لابن عساکر ، ج 30 ، ص 383 ، دار الفکر ، بیروت )

جو شخص اس اجماعی عقیدے کے خلاف عقیدہ رکھے، وہ شخص اہلسنت  و جماعت سے خارج اور بدعتی و گمراہ ہے۔”ان فضل علیا رضی اللہ عنہ علیھما فمبتدع “ ترجمہ:اگر کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر فضیلت  دے ، وہ   گمراہ و بدعتی ہے۔                                                                                                            (الاشباہ و النظائر ، ص159 ، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

مجمع الانہر میں ہے؛” ان فضل علیا فھو مبتدع  و ان انکر خلافۃ الصدیق فھو کافر“ ترجمہ : اگر کوئی شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما پر فضیلت  دے ، وہ   گمراہ و بدعتی ہے اور اگر صدیق اکبر رضی اللہ  عنہ کی خلافت کا انکار کرے ، تو کافر ہے۔                                                                                                                      (مجمع الانھر، ج ص108،  دار احیاء التراث العربی ، بیروت)

 نوٹ :  اس مسئلے پر تفصیلی دلائل پڑھنے کے لئے  امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی کتاب ” مطلع القمرین فی ابانۃ سبقۃ العمرین “ کا مطالعہ فرمائیں ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم