آدمی خود ایک جگہ اور مالِ زکوٰۃ کسی دوسری جگہ ہو، تو کس جگہ کے ریٹ کا اعتبار ہو گا
ریفرینس نمبر: 14
تاریخ اجراء:08 جمادی الاخریٰ 1445 ھ بمطابق 22 دسمبر 2023 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم جو بھی عبادت کرتے ہیں، ممکن ہے کہ وہ عبادت قبول ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ قبول نہ ہو، لیکن درودِ پاک ایسی عبادت ہے کہ یہ ہر حال میں مقبول ہے، درود ِ پاک کسی بھی صورت میں رد نہیں کیا جاتا حتی کہ ریاکاری کے ساتھ بھی درودِ پاک پڑھیں ، تو بھی قبول ہوتا ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بعض علماء سے ایسے اقوال منقول ہیں کہ جن میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ درودِ پاک ہر حال میں یقینی طور پر مقبول ہے ۔ البتہ علمائے کرام نے ایسے اقوال کے محمل (معنیٰ و مفہوم) کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ان اقوال کی دو جہتیں ہیں۔
(1)مقبولیت بمعنیٰ اجابتِ دعا:یعنی درودِ پاک پڑھتے وقت بندہ جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود اور رحمتوں کے نزول کی دعا کر رہا ہوتا ہے، وہ دعا اجابت (قبولیت) کے درجے میں ہے، خواہ پڑھنے والا ریاکاری سے پڑھے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب بندہ درود پڑھتا ہے، تو وہ کہتا ہے : ”اللھم صل علی سیدنا محمد“ یعنی اے اللہ ہمارے آقا و مولا (علیہ السلام) پر درود بھیج ۔ تو وہ اللہ تعالیٰ سے درودِ پاک بھیجنے کی دعا کر رہا ہوا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے :﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ ترجمہ کنز الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پارہ 2 2، سورۃ الاحزاب ، آیت:56)
جس سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پر درود(رحمتیں) بھیجتا ہے اور اس میں انقطاع نہیں ہوتا یعنی یہ درود کا سلسلہ رُکتا نہیں، بلکہ ہر حال میں جاری و ساری رہتا ہے ، تو بندہ اپنے درود میں اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز کی دعا کر رہا ہوتا ہے کہ جووعدہ الہٰیہ کے مطابق پہلے سے ہی جاری ہے، تو گویا اس کی یہ دعا تو پہلے ہی قبولیت کے درجے میں ہے، لہٰذا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کوئی یہ کلماتِ دعا( درود کے صیغے) اخلاص سے پڑھے یا ریا سے، بہر صورت یہ مقبولیت تو حاصل ہی رہے گی ۔
(2)مقبولیت بمعنیٰ حصولِ ثواب : یعنی ایسی مقبولیت کا حصول کہ اس پر ثواب بھی ملے ۔ اس کے حوالے سے یہ حکم ہے کہ جس طرح کسی عمل پر ثواب ملنا اخلاصِ عمل اور ریا سے پاک ہونے وغیر شرائطِ قبولیت پر موقوف ہوتا ہے ، ایسے ہی درودِ پاک میں بھی ثواب اسی صورت میں ملے گا کہ جب پڑھنے والا اخلاص وغیرہ شرائط کا جامع ہو، اگر وہ تمام شرائط کا لحاظ کر کے درودِ پاک پڑھے گا، تو ان شاء اللہ عزوجل اسے ثواب ملے گا ، لیکن اگر ریاکاری وغیرہ کے ساتھ درودِ پاک پڑھا، تو اسے ثواب نہیں ملے گا، بلکہ ریاکاری کی وجہ سے وہ گناہ گار ہو گا۔
تو علمائے کرام سے جو اقوال منقول ہیں کہ درود ہر حال میں مقبول ہے یا درود کبھی رد نہیں کیا جاتا ، تو اس سے مراد مقبولیت بمعنیٰ اجابتِ دعا ہے، جبکہ حصولِ ثواب کے لیے شرائطِ قبول اخلاص وغیرہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ (رد المحتار، ج1، ص520، دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


