زنا ایک قرض ہے
ریفرینس نمبر: 22
تاریخ اجراء:17 رجب المرجب 1445ھ بمطابق 27 جنوری 2024ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
ایک بات مشہور ہے کہ زنا ایک قرض ہے۔ کیا یہ بات سچ ہے نیز اگرباپ زنا کرے، توکیا اس کا بدلہ اس کی بیٹی ادا کرے گی؟جبکہ اس میں اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے، تو یہ بات عقل اور اسلامی احکام سے بعید نظر آتی ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اس مفہوم کے اقوال کتب میں موجود ہیں کہ جن سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی زنا کرے، تو اس کے گھر والے اس کی ادائیگی کرتے ہیں جیسا کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ زنا ایک قرض ہے اور اگر تم زنا کرو گے، تو تمہارے گھر والے اس کی ادائیگی کریں گے۔ (غذاء الالباب فی شرح منظومۃ الآداب، ج2، ص440، مطبوعہ مصر )
اور اس بات کی معنوی طور پر تائید اس حدیث پاک سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں فرمایا گیا :”من زنی زنی بہ“ ترجمہ: جس نے زنا کیا، اس کے ساتھ بھی زنا کیا جائے گا۔ (کنزالعمال، ج5، ص456، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
البتہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ضرور بالضرور اولاد کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، بلکہ اس قول کی درج ذیل توجیہات ہو سکتی ہیں :
(1) یہ قول اس تناظر میں ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل کا نام ہے، تو جو جیسا کرے گا ، ویسا بدلہ بھی پائے گا، ”کما تدین تدان“ ۔
(2) اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس بندے کی ایسی بری خصلت ہو گی، یقینی سے بات ہے کہ اس عادتِ بد کا اس کے گھر پر بھی اثر ہو گا جیسے گھر میں نیکی کے کام ہوں، تو اولاد نیکی کے راستے پر گامزن ہوتی ہے اور گھر میں گناہ ہوتے ہوں ، تو گھر والے بھی اسی راہ کو اپنا لیتے ہیں، تو اسی مفہوم میں اگر بزرگوں کے ان فرامین کو لیا جائے، تو یہ فرامین عقل سے بعید اور اسلامی احکام سے متصادم نظر نہیں آئیں گے، بلکہ ان میں عمومی طور پر معاشرے میں پائی جانے والی صورتوں کی عکاسی نظر آئے گی اور مفہوم یہ ہو گا کہ جو بندہ زنا یا کسی بھی برے فعل میں مبتلا ہو گا، تو لامحالہ اس کا اثر اس کے گھر میں بھی ظاہر ہو گا جیسا کہ مشاہدہ ہے کہ عموماً ایسا ہوتا بھی ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ ہر قسم کے گناہ سے باز رہے۔
(3) نیزان اقوال کی ایک توجیہ یہ ہے کہ ایسے اقوال زجر و توبیخ کے لیے بیان ہوئے ہیں تاکہ کوئی بھی ایسے کسی گناہ کے قریب بھی نہ جائے ۔
اور یہ بات قرآن ِکریم کی اس آیت کے بھی مخالف نہیں کہ جس میں فرمایا گیا کہ ایک جان دوسری جان کا گناہ نہ اٹھائے گی، کیونکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ایک بندے نے گناہ کیا ہی نہیں اور دوسرے کے گناہ کی سزا اسے ملے، ایسا نہیں ہو سکتا، جبکہ یہاں ایسا نہیں، کیونکہ جو زنا یا کسی گناہ میں مبتلا ہو، تو اس کی نسل میں سے کسی نے ایسا نہ بھی کیا، تو اسے گناہ یا سزا ہو گی، ایسا ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی ان اقوال کو فرمانے والے بزرگوں کی یہ مراد ہے، بلکہ اس کو گناہ و سزا اسی وقت ہو گی کہ جب وہ خدانخواستہ ایسے کسی گناہ میں مبتلاء ہو گا ، جبکہ توبہ کئے بغیر دنیا سے چلا جائے ، اگر توبہ کر لی، تو ان شاء اللہ عزوجل گناہ معاف ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ گناہ کی نحوست بھی ظاہر نہیں ہو گی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


