فوتگی کے اعلان میں رضائے الہٰی یا قضائے الہٰی بولنا؟

فوتگی کے اعلان میں رضائے الہٰی یا قضائے الہٰی بولنا

ریفرینس نمبر: 16

تاریخ اجراء:23 جمادی الاخریٰ 1445  ھ بمطابق 06 جنوری 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ  دیکھی  ،  جس میں  یہ لکھا تھا کہ” قضا کا معنی: تقدیرِ الہی، نوشتہ ،تقدیر ،فیصلہ ، اتفاق یا حادثہ ۔ جبکہ رضا کا معنی :مرضی خوشنودی اور خوشی ہے۔  کچھ لوگ موت کو رضائے الہٰی کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ فلاں رضائے الہٰی سے فوت ہوگیا  ، حالانکہ موت  رضائے الہٰی سے نہیں  ، بلکہ قضائے الہٰی سے واقع ہوتی ہے۔“ سوال یہ ہے کہ کیا فوتگی کے اعلان/خبر دینے میں رضائے الہٰی بول سکتے ہیں یا نہیں اور  پوسٹ میں لکھی بات کس حد تک درست ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

کسی کی فوتگی کااعلان کرتے ہوئے/ خبر دیتے ہوئے  خواہ یوں کہا جائے کہ فلاں کا قضائے الہٰی سے انتقال ہو گیا ہے یا یہ کہا جائے کہ  رضائے الہٰی سے انتقال ہو گیا ہے، دونوں طریقے شرعاً جائز و درست ہیں ۔ اور سوال میں جو بات نقل کی گئی ہے،وہ  درست نہیں ہے، اس وجہ سے کہ ا ردو لغت میں رضا/مرضی کا لفظ ” منظوری اور اجازت “ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اردو لغت میں رضا کے یہ معانی بیان ہوئے ہیں: ”خوشی، مرضی، مہلت، اجازت ، رخصت،  چھٹی“   (فیروز اللغات، ص752 ، فیروز سنز لمیٹڈ ، پاکستان) اسی طرح مرضی کے  یہ معانی بیان ہوئے ہیں؛ ”پسندیدگی، خوشنودی ، اقرار، منظوری ، اجازت ، خواہش“   (فیروز اللغات، ص1291 ، فیروز سنز لمیٹڈ ، پاکستان) معلوم ہوا کہ رضا/مرضی کا لفظ” منظوری اور اجازت “ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور عرف میں جب  رضائے الہٰی کا لفظ بولا جاتا ہے، تو یہی معنیٰ مراد ہوتے ہیں،  لہٰذا کسی کی فوتگی کی  پرجس طرح قضائے الہٰی بول سکتے ہیں، اسی  طرح رضائے الہٰی بولنے میں بھی حرج نہیں ہے ، بلکہ اور یقیناً یہ معنیٰ مراد لئے جائیں، تو پوسٹ والے صاحب کو بھی اس  جگہ اس معنیٰ کے اعتبار سے رضائے الہٰی کا لفظ بولنے میں اعتراض نہیں ہو گا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ عموماً اس پر بعض قرآنی آیات وغیرہ پیش کی جاتی ہیں کہ جن  سے  قضا اور رضا کا فرق ثابت کر نے اور  فوتگی کے موقع پر  رضا کا لفظ بولنے  کی ممانعت ثابت کرنے  کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بھی درست نہیں ، اس لیے کہ اردو کے لفظ رضا/مرضی پر   عربی لغت  سے استدلال کرنا اور اردو کے لفظ کو اسی عربی زبان کے استعمال کے مطابق محصور و مقید مان لینا پھر ہمارے عرف اور معاشرے میں رائج  معانی کو ترک کرکے ایک الگ معنیٰ پر محمول کر لیناکسی طرح بھی درست نہیں ہے ، اس وجہ سے کہ جب کسی زبان کے لفظ پر بحث کی جائے، تو جس  زبان کا لفظ ہو ، اسی کی لغت اور اہل زبان میں اس کے جو معنیٰ استعمال  ہوتے ہیں، ان  ہی  کا اعتبار  ہوتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم