مور کھانا کیسا
ریفرینس نمبر: 27
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
کیا مورکھاناشرعی طور پر حلال ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فقہ حنفی کےقواعدکی روشنی میں مور حلال ہے،اس لئے کہ پرندوں کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ پرندہ جس کے پنجے ہوں اور وہ اُن پنجوں سے شکار بھی کرتا ہو،تووہ پرندہ حرام ہوگااورجس کے پنجے ہی نہ ہوں یا پنجےتو ہوں، لیکن وہ اُن سے شکار نہ کرتا ہو،تو وہ پرندہ حلال ہے،اس تفصیل کےمطابق دیکھا جائے،تو مور کےپنجے ہی نہیں ہوتے ، لہٰذا یہ حرام نہیں ہے نیزاس کےحلال ہونے پر فقہائےکرام کی تصریحات بھی موجود ہیں۔
حضرت سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم عن کل ذی ناب من السباع و عن کل ذی مخلب من الطیر‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر نوکیلےدانت والے درندےاورپنجے والےپرندے (کو کھانے) سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم،ج2،ص147،قدیمی کتب خانہ،کراچی)
جوہرہ نیرہ میں ہے:’’(لایجوز اکل کل ذی ناب من السباع ولاذی مخلب من الطیر) المراد من ذی الناب ان یکون لہ ناب یصطاد بہ وکذا من ذی المخلب‘‘ ترجمہ:’’نوکیلے دانت والے درندوں اور پنجوں والے پرندوں کا کھانا،جائزنہیں ہے‘‘اورنوکیلے دانتوں سے مرادیہ کہ اُس کےایسے نوکیلے دانت ہوں،جن سے وہ شکار کرتا ہو اور اسی طرح پنجوں سے مرادیہ ہے کہ اُن سے وہ پرندہ شکار بھی کرتا ہو۔ (الجوھرۃ النیرۃ،ج2،ص265،قدیمی کتب خانہ،کراچی)
مور کے بارے میں فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’لا باس باکل الطاووس‘‘ ترجمہ: مور کھانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ( فتاوی عالمگیری،ج5،ص 358، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


