سحری کی نیت کے معروف الفاظ / کلمات پر ایک اعتراض کا جواب

سحری کی نیت کے معروف الفاظ / کلمات پر ایک اعتراض کا جواب

ریفرینس نمبر: 35 

تاریخ اجراء:05 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 15 مارچ 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

ہم لوگ روزے کی یہ نیت کرتے ہیں”بصوم غد نویت من شھر رمضان“بعض لوگ کہتے ہیں کہ  یہ الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ، یہ تو  پاک و ہند کے  آجکل کے علماء نے عوام کو بنا کر دے دئیے ہیں، ورنہ اس کا حدیث سے ثبوت  نہیں ملتا  اور پھر کہتے ہیں کہ اس کے الفاظ بھی درست نہیں، اس وجہ سے کہ ” غد“  تو آنے والے  دن / کل کو کہتے ہیں، جبکہ روزہ کل  کا نہیں آج  کا رکھا جا رہا ہے۔  آپ سے گزارش ہے کہ   اس بارے میں رہنمائی کر دیجئے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں ان الفاظ ” بصوم غد نویت من شھر رمضان “ کے ساتھ روزے کی نیت کرنا درست ہے۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ نیت  دل کے پختہ اور پکے ارادے کو کہتے ہیں ،اس میں زبان سے کسی قسم کے الفاظ بولنا ضروری نہیں ، لہذا اگر کسی نے دل میں روزے کی پکی نیت کر لی اور زبان سے کوئی بھی لفظ نہ بولا ، تو اس کی نیت درست ہے، اس کا روزہ ہو جائے گا۔حتی کہ روزے کی نیت سے سحری کرلینا بھی ایک طرح کی نیت ہی ہے، کہ جب وہ روزے کی نیت سے سحری کر رہا ہے،تو گویا وہ روزے ہی کی نیت کر رہا ہے۔

نیت کے حوالے سے علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی (متوفی587ھ) اپنی مشہور و معروف کتاب بدائع الصنائع میں ارشاد فرماتےہیں: ’’النیۃ ھی الارادۃ ۔۔۔ والارادۃ  عمل القلب“  ترجمہ : نیت (پختہ) ارادے کا نام ہےاور ارادہ دل کا عمل ہے۔   (بدائع الصنائع ، ج1،ص127،بیروت)

یہ بات درست ہے کہ نیت کے لئے الفاظ کی بالکل بھی ضرورت نہیں، یہی وجہ ہے کہ نماز وغیرہ مختلف مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے  نیت کے حوالے سے خاص قسم کے کوئی الفاظ منقول نہیں ہیں، یہ حضرات دل ہی میں پختہ نیت کر لیتے، پھر اسے ہی کافی سمجھتے تھے۔ لیکن جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہر انسان اپنی کیفیت کا خوب اندازہ کر سکتا ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز کی وجہ سے کس طرح اس کا دل و دماغ ہر وقت مختلف قسم کے خیالات میں الجھا رہتا ہے،انسان ایک وقت میں کئی  کئی چیزوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے حتی کہ عبادت میں بھی ان چیزوں سے نہیں بچ پاتا، الغرض ! ذہن کوایک وقت میں خالصتاً ایک معاملے کی طرف متوجہ کرنا کچھ مشکل ہوجاتا ہےاور دوسری جانب روزے جیسی عبادت کے لئے نیت کرنا بھی ضروری ہے، اگردل سے پختہ نیت ہی نہ ہوئی ، توسارا دن بھوکا پیاسا رہنے کے باوجود اس کا روزہ ہی شمار نہیں ہوگا۔اس صورتِ حال کے پیشِ نظر علماء کرام رحمہم اللہ السلام  نے فرمایا کہ اگر دل میں نیت کرنے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی نیت کے کچھ الفاظ بول دئیے جائیں ، تو یہ بہت بہتر ہے تاکہ نیت کی پختگی لفظوں سے بھی واضح ہو جائے،کیونکہ زبان عموماً دل کی ترجمان ہوتی ہے۔

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان ذہن کے یکسو ہونے کی وجہ سے دل ہی کی نیت کو کافی سمجھ لیتے تھے ، زبان سے نیت نہیں کرتے تھے،تو اب حدیث سے نیت کے الفاظ کا مطالبہ کرنا ہی بے معنی ہوا۔

نیزعلماء کرام رحمہم اللہ السلام نے ہمارے ذہن کی کیفیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے،ہماری ہی بہتری کی خاطر زبان سے بھی نیت کے الفاظ بولنے کا کہا(تاکہ نیت کی پختگی زبان سے بھی حاصل ہو جائےاور روزے جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کا شبہ باقی نہ رہے) تو ان علماء کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ان  پر الٹا اعتراض کرنا اور انہیں طعن و تشنیع  کا نشانہ بنانا حماقت کےسوا کچھ نہیں ہوگا ۔

پھر یہ بھی  یاد رہے کہ زبان سے نیت کرنی ہو، تو اس کے لئے کوئی خاص الفاظ بولنا ضروری نہیں، اس میں کسی بھی زبان میں ،ایسےکوئی بھی  الفاظ بولے جا سکتے ہیں جو نیت پر دلالت کر رہے ہوں۔

اور جو معروف کلمات ہیں : ’’وبصوم غدنویت من شہر رمضان‘‘ ان الفاظ سے بھی نیت کی جا سکتی ہےکہ یہ الفاظ بھی نیت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ  کہنا کہ  یہ الفاظ پاک و ہند کے آجکل کے علماء نے   عوام کو بنا کر دے دئیے ہیں ، اس لیے کہ اس طرح کے الفاظ تو دنیا کے مختلف مقامات پر بسنے والے بڑے بڑے فقہاء (جن کی کتابوں پر عرب و عجم میں اعتماد کیا جاتا ہےاور ان کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے) نے صدیوں قبل اپنی اپنی کتابوں میں ذکر کئے ہیں ۔

علامہ شیخ الاسلام ابو بکر بن علی بن محمد (متوفیٰ 800ھ)رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف کتاب جوہرہ نیرہ میں نیت کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں:’’نویت ان اصوم غدا للہ تعالیٰ من فرض رمضان ‘‘میں نے اللہ تعالی کے لئے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی۔   (جلد1،صفحہ136،الطبعۃ الخیریہ)

اور علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1252ھ) اپنی مشہور معروف کتاب فتاوی شامی میں فرماتے ہیں: ’’نویت اسول غدا“  ترجمہ : میں نے کل کے روزے کی نیت کی۔   (فتاوی شامی، جلد2، صفحہ280، دارالفکر)

اس پر یہ سوال  کرنا بھی جہالت پر مبنی ہے کہ اس نیت میں لفظِ” غد“ استعمال ہوا ہے ،جس کے مطابق ترجمہ بنتا ہے کہ میں رمضان کے کل کے روزے کی نیت کرتا ہوں، حالانکہ روزہ تو آج کا رکھنا ہوتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ یہ بات ہی سرے سے باطل و مردود ہے، اس وجہ سے کہ عربی کے اعتبار سے ”غد“ کا لفظ مطلقاً  مستقبل (آنے والے زمانے) کے لیے بولا جاتا ہے ، اگلے دن کے معنیٰ  کے لیے ہی یہ لفظ متعین ہو، ایسا ضروری نہیں۔

تفسیر جلالین میں قرآن کریم کی آیت مقدسہ ﴿انی فاعل ذلک غدا﴾ میں موجود لفظ ”غدا“ کی تفسیر یوں کی گئی : ”فیما یستقبل من الزمان“ ترجمہ :میں یہ کام  غد یعنی مستقبل میں آنے والے زمانے میں کروں گا۔   (تفسیر الجلالین، ج3، ص467، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اور اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو الگ الگ بنایا ہے۔ رات کا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر صبح صادق طلوع ہونے یعنی فجر کا ٹائم شروع ہونے تک ہے اور دن کا وقت صبح صادق طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک ہے۔ اور روزے کی یہ نیت صبح صادق طلوع ہونے (یعنی دن کا آغاز ہونے) سے پہلے  پہلےرات ہی میں کی جاتی ہے ۔پس جب یہ نیت رات میں کی جاتی ہے، تواس اعتبار سے یہ کل ہی کے روزے کی کہلائے گی  یعنی آنے والی صبح ۔ نیز ”غد“ کے مادے کا  ایک معنیٰ دن کا ابتدائی حصہ یا صبح کا وقت  ہے جیسا کہ المنجد میں ہے: ”غدی الرجل:  دن کے ابتدائی حصہ میں کھانا کھلانا۔  غادی مغاداۃ  الرجل: صبح کے وقت آنا۔   (المنجد، ص603، خزینہ علم و ادب)

اوراس طرح نیت کرنے والوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ صبح صادق سے جو روزہ شروع ہو رہا ہے،  ہم اس کی نیت کر رہے ہیں ، نہ کہ اس روزے کو چھوڑ کر اگلے دن آنے والے روزے کی۔

پھر عرف میں دیکھا جائے، تو اس طرح کے الفاظ ہمارے معاشرے میں عام استعمال ہوتے ہیں مثلاً کو ئی رات  دو بجے یہ کہے کہ میں نےکل فلاں فلاں جگہ جانا ہے،کل فلاں فلاں چیز کھانی ہے،کل فلاں فلاں کام کرنا ہے وغیرہ۔اس  سے مقصود آنے والا ہی دن ہوتا ہے، نہ کہ ایک دن چھوڑ کر اگلادن۔یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی روزے کی نیت رات کو نہیں کرتا، بلکہ دن کو  کرتا ہے (یاد رہے کہ رمضان کے فرض روزے کی نیت ضحوی کبریٰ ، جسے لوگ زوال کا وقت کہتے ہیں، وہ شروع ہونے سے پہلے پہلے تک کی جا سکتی ہے،جبکہ روزے کا وقت شروع ہونے سے لے کر نیت کرنے تک کچھ بھی نہ کھایاپیا ہو) تو علماء نے فرمایاکہ اب وہ شخص ان الفاظ کے ساتھ نیت نہ کرے کہ میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت  کی ،بلکہ اب وہ یوں نیت کرے کہ میں نے آج کے روزے کی نیت کی ۔ لہذا لفظِ غد (کل) کی وجہ سے نیت غلط قرار دینا بھی درست نہیں ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم