حاملہ کے لیے روزہ معاف ؟

حاملہ کے لیے روزہ معاف؟

ریفرینس نمبر: 40

تاریخ اجراء:10 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 21 مارچ 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

کیا حاملہ (Pregnant) عورت کو رمضان کے روزے چھوڑنے کی اجازت ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

حاملہ عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کو نقصان پہنچنے یا بیمار ہو جانے یا ناقابل ِ برداشت مشقت میں پڑ جانے کا صحیح اندیشہ ہے ، تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورظنِ غالب تین طرح سے حاصل ہو سکتا ہے: اس کی کوئی واضح علامت ہو یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو یا کوئی ایساماہر مسلمان ڈاکٹر جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتا ہو ، وہ بتائے ۔

نیز یا د رہے کہ بیماری یا ہلاکت وغیرہ کا محض خیال کافی نہیں ، بلکہ مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق ظن غالبِ حاصل ہونا ضروری ہے۔

اگر بیان کردہ   تفصیل کے  مطابق رخصت  نکلے ، تو حاملہ عورت کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو گی اور بعد میں اس کی قضاء لازم ہو گی، لیکن  اگر رخصت والی صورت  نہ بنتی  ہو، تو روزہ چھوڑنے کی  اجازت نہیں ہو گی، بلاعذر روزہ چھوڑے گی، تو سخت گناہ گار ہو گی اور توبہ کے ساتھ ساتھ روزے کی  قضاء بھی لازم ہو گی۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحامل أو المرضع الصوم“ ترجمہ:بے شک اللہ تعالی نے مسافر سے روزے اور نماز کے ایک حصے کو اٹھا  دیا ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی سے بھی روزے اٹھا دیے ہیں۔   (جامع  ترمذی، ج3، ص50، دار ابن کثیر، بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:’’الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة‘‘ترجمہ : حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی یا بچے کی جان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑسکتی ہیں  اور اس کی قضا کریں گی ، ان دونوں پر اس کا کفارہ نہیں۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے ۔   (فتاوی عالمگیری، جلد1، صفحہ207، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :’’والحامل والمرضع إذا خافتا على ولديهما أو نفسيهما أفطرتا وقضتا لا غير ،  قياسا على المريض، والجامع دفع الحرج والضرر‘‘ترجمہ : حاملہ اور مرضعہ کواپنے بچے یا اپنی جان کا خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑیں گی اور اس کی صرف قضا ہی کریں گی ، ان کو مریض پر قیاس کیا گیا ہےاور دونوں میں وجہِ قیاس حرج اور ضرر کا دور کرنا ہے۔“   (الاختیار لتعلیل المختار، ج1، ص144، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ حاملہ ، دودھ پلانے والی اور مریض کے روزہ چھوڑنے کی صورت کو بیان کر کے لکھتے ہیں :”ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے ،محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:(۱) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا(۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا(۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“   (بھار شریعت، ج1،حصہ 5،  ص 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

حاملہ عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کو نقصان پہنچنے یا بیمار ہو جانے یا ناقابل ِ برداشت مشقت میں پڑ جانے کا صحیح اندیشہ ہے ، تو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورظنِ غالب تین طرح سے حاصل ہو سکتا ہے: اس کی کوئی واضح علامت ہو یا سابقہ ذاتی تجربہ ہو یا کوئی ایساماہر مسلمان ڈاکٹر جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتا ہو ، وہ بتائے ۔

نیز یا د رہے کہ بیماری یا ہلاکت وغیرہ کا محض خیال کافی نہیں ، بلکہ مذکورہ طریقوں میں سے کسی طریقے کے مطابق ظن غالبِ حاصل ہونا ضروری ہے۔

اگر بیان کردہ   تفصیل کے  مطابق رخصت  نکلے ، تو حاملہ عورت کو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہو گی اور بعد میں اس کی قضاء لازم ہو گی، لیکن  اگر رخصت والی صورت  نہ بنتی  ہو، تو روزہ چھوڑنے کی  اجازت نہیں ہو گی، بلاعذر روزہ چھوڑے گی، تو سخت گناہ گار ہو گی اور توبہ کے ساتھ ساتھ روزے کی  قضاء بھی لازم ہو گی۔

نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”إن الله تعالى وضع عن المسافر الصوم وشطر الصلاة وعن الحامل أو المرضع الصوم“ترجمہ:بے شک اللہ تعالی نے مسافر سے روزے اور نماز کے ایک حصے کو اٹھا  دیا ہے اور حاملہ اور دودھ پلانے والی سے بھی روزے اٹھا دیے ہیں ۔   (جامع  ترمذی، ج3، ص 50، دار ابن کثیر ، بیروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:’’الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة‘‘ترجمہ : حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو جب اپنی یا بچے کی جان کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑسکتی ہیں  اور اس کی قضا کریں گی ، ان دونوں پر اس کا کفارہ نہیں۔ اسی طرح خلاصہ میں ہے ۔                                                             (فتاوی عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 207 ، مطبوعہ دار الفکر ، بیروت)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :’’والحامل والمرضع إذا خافتا على ولديهما أو نفسيهما أفطرتا وقضتا لا غير ،  قياسا على المريض، والجامع دفع الحرج والضرر‘‘ترجمہ : حاملہ اور مرضعہ کواپنے بچے یا اپنی جان کا خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑیں گی اور اس کی صرف قضا ہی کریں گی ، ان کو مریض پر قیاس کیا گیا ہےاور دونوں میں وجہِ قیاس حرج اور ضرر کا دور کرنا ہے۔“   (الاختیار لتعلیل المختار ، ج 1 ، ص 144 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ حاملہ ، دودھ پلانے والی اور مریض کے روزہ چھوڑنے کی صورت کو بیان کر کے لکھتے ہیں :”ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے ،محض وہم ناکافی ہے۔ غالب گمان کی تین صورتیں ہیں:(۱) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے یا(۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہے یا(۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔“   (بھار شریعت، ج1،حصہ 5،  ص 1003، مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم