عشاء کے بعد سوئے بغیر تہجد کی نماز
ریفرینس نمبر: 42
تاریخ اجراء:12 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 23 مارچ 2024 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
ایسا پچاس سالہ شخص کہ جو شوگر وغیرہ کی بیماری میں مبتلا ہو ، جس وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہو ، تو کیا وہ روزوں کی بجائے ان کا فدیہ دے سکتا ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
روزہ کی بجائے اس کا فدیہ ادا کرنے کا حکم شیخِ فانی کے لئے ہے ، مریض کیلئے نہیں . شیخِ فانی وہ شخص ہے کہ جو کبر سنی / بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ حقیقتاً روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو ، نہ سردی میں روزہ رکھ سکے نہ گرمی میں ، نہ لگاتار نہ متفرق طور پر اور نہ ہی آئندہ زمانے میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو ۔
ہاں ! بعض صورتوں میں بیمار کو صحتیاب ہونے تک روزہ قضا کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے ۔
کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق جاننے سے قبل تمہیداً یہ اصول ذہن نشین کر لیجئے کہ محض کسی بیماری میں مبتلا ہونا روزہ چھوڑنے کے لئے عذر نہیں ، بلکہ اگر مریض تھوڑی بہت مشقت کے ساتھ روزہ رکھ سکتا ہے ، تو بقیہ شرائط کی موجودگی میں اس پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہوں گے . البتہ اگر بیماری کی نوعیت ایسی ہے کہ روزہ رکھنے سے مرض بڑھ جانے یا دیر سے اچھا ہونے یا تندرست کو روزے کی وجہ سے بیمار ہونے کا غالب گمان ہو یعنی روزہ رکھنے سے بیمار ہونے یا بیماری کے بڑھ جانے کا گمان ایسا پختہ ہو کہ جانبِ مخالف (بیمار نہ ہونے یا بیماری نہ بڑھنے والی بات) وہم سی بن کر رہ جائے ، بایں طور کہ کوئی ظاہری نشانی پائی جائے یا اس شخص کا ذاتی تجربہ ہو یا کسی ماہر طبیب غیر فاسق نے بتایا ہو (غیر فاسق طبیب میسر نہ ہو ، تو دینی ذہن رکھنے والے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرے یا کوشش کرے کہ ایک سے زائد ماہر ڈاکٹرز سے رائے لے)، تو ایسی حالت میں یا اس کے علاوہ روزہ چھوڑنے کے اعذار میں سے کوئی عذر پایا جائے ، تو روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے ، لیکن عذر کے ایام ختم ہو جانے کے بعد روزوں کی قضا کرنی ہو گی ۔
اس تفصیل کے بعد صورتِ مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ پچاس سال شیخ فانی کی عمر نہیں ہوتی ، لہٰذا پچاس سالہ شوگر وغیرہ کے مریض کے لئے روزہ رکھنا ممکن ہو ، تو رمضان المبارک کے فرض روزے رکھنے ہوں گے ، اگرچہ روزہ رکھنے میں کچھ مشقت اٹھانی پڑے . البتہ اگر روزہ رکھنے کی وجہ سے ناقابلِ برداشت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا بیماری میں اضافہ ہونے یا دیر سے اچھا ہونے کا گمان غالب ہو (جس کی تفصیل بیان ہو چکی) ، تو پھر اس صورت میں روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے ، لیکن یہ روزے معاف نہیں ہوں گے اور نہ ہی محض اس وجہ سے فدیہ دینا کافی ہو گا ، بلکہ صحتیابی کے بعد جس طرح ممکن ہو ادا کرنا فرض ہو گا۔ (سوائے اس کے کہ مریض شیخِ فانی بن جائے ، یعنی اگر وہ اسی بیماری کی حالت میں ایسی عمر کو پہنچ جائے ، جس میں نہ فی الحال روزہ رکھ سکے اور نہ ہی آئندہ روزہ رکھنے کی استطاعت اور امید باقی رہے ، تو اس پر قضا شدہ روزوں کے بدلے فدیہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے ، لیکن سوال میں بیان کردہ صورتحال میں اگر شرعی طور پر روزے چھوڑنے کی اجازت ہو ، تب بھی فدیہ دینے کی اجازت نہیں ہو گی ، کیونکہ مرض کے ختم ہونے یا صحت بحال ہو جانے کے بعد اسے روزہ رکھنے کی قدرت مل جائے گی، لہذا اس مریض کو روزوں کی قضا ہی کرنی ہو گی ، فدیہ دینا کافی نہیں ہو گا۔
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ” بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کیلئے جائز ہے جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو ، ایسا ہر گز نہیں ، فدیہ صرف شیخِ فانی کیلئے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی حقیقۃً روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو ، نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اُس کیلئے فدیہ کا حکم ہے اور جو شخص روزہ خود رکھ سکتا ہو اور ایسا مریض نہیں ، جس کے مرض کو روزہ مضر ہو ، اس پر خود روزہ رکھنا فرض ہے ، اگرچہ تکلیف ہو ، بھوک پیاس گرمی خشکی کی تکلیف تو گویا لازمِ روزہ ہے اور اسی حکمت کیلئے روزہ کا حکم فرمایا گیا ہے ، اس کے ڈر سے اگر روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہو ، تو معاذ اللہ عزوجل روزے کا حکم ہی بیکار و معطل ہو جائے ۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ521، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
مزید ایک جگہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : ”جس جوان یا بوڑھے کو کسی بیماری کے سبب ایسا ضعف ہو کہ روزہ نہیں رکھ سکتے انہیں بھی کفارہ دینے کی اجازت نہیں ، بلکہ بیماری جانے کا انتظار کریں ، اگر قبلِ شفا موت آجائے تو اس وقت کفارہ کی وصیت کر دیں،غرض یہ ہے کہ کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں ، نہ لگاتار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو ، اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اُسے ایسا ضعیف کردیا کہ روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا ، تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ ، جلد10، صفحہ547، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
ہاں ! اگر بیمار شخص مسکین کو کھانا دے ، تو مستحب ہے ، لیکن یہ کھانا اس کے روزے کا بدلہ / فدیہ نہیں ہو گا ، بلکہ صحت یاب ہونے کے بعد اس پر ان روزوں کی قضا لازم ہو گی ۔
فتاوی رضویہ میں ہے : ” اگر واقعی کسی ایسے مرض میں مبتلاہے جسے روزہ سے ضرر پہنچتا ہے ، تو تاحصولِ صحت اُسے روزہ قضا کرنے کی اجازت ہے ، اُس کے بدلے اگر مسکین کو کھانا دے ، تو مستحب ہے ، ثواب ہے ، جبکہ اُسے روزہ کا بدلہ نہ سمجھے اور سچے دل سے نیت رکھے کہ جب صحت پائے گا ، جتنے روزے قضا ہوئے ہیں ادا کرے گا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 10، صفحہ 521، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


