روزے کی حالت میں قے آنے کا حکم؟

روزے کی حالت میں قے آنے کا حکم

ریفرینس نمبر: 45

تاریخ اجراء:15 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 26 مارچ 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

اگر خود بخود قے آجائے اور منہ بھر بھی ہو یعنی اسے بغیر تکلف روکنا ممکن نہ ہو ، تو کیا اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا، اس وجہ سے کہ روزے کی حالت میں  قے آنے (Vomiting) کی وجہ سے روزہ  ٹوٹنے کے لیے دو شرائط کا مجمتع ہونا(اکٹھا پایا جانا) ضروری ہے:

(1) جان بوجھ کر قے کی ہو مثلاً انگلی وغیرہ منہ میں ڈال کر قے کی۔

(2)  منہ بھر قے ہو یعنی اسے بغیر تکلف روکنا ممکن نہ ہو ۔

اگر یہ دو شرائط پائیں جائیں، تو  قے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو ، لیکن اگر یہ ان دونوں شرطوں میں سےا یک شرط پائی جائے اور دوسری شرط نہ پائی جائے جیسے جان بوجھ کر قے نہیں کی ، بلکہ خود بخود قے آئی ، اگرچہ منہ بھر ہو یا جان بوجھ کر قے کی ، لیکن منہ بھر نہ ہو،  تو اس کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔   (فتاوی شامی ، ج 3، ص450، مطبوعہ پشاور)

پوچھی گئی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا، اس وجہ سے کہ روزے کی حالت میں  قے آنے (Vomiting) کی وجہ سے روزہ  ٹوٹنے کے لیے دو شرائط کا مجمتع ہونا(اکٹھا پایا جانا) ضروری ہے:

(1) جان بوجھ کر قے کی ہو مثلاً انگلی وغیرہ منہ میں ڈال کر قے کی۔

(2)  منہ بھر قے ہو یعنی اسے بغیر تکلف روکنا ممکن نہ ہو ۔

اگر یہ دو شرائط پائیں جائیں، تو  قے کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو ، لیکن اگر یہ ان دونوں شرطوں میں سےا یک شرط پائی جائے اور دوسری شرط نہ پائی جائے جیسے جان بوجھ کر قے نہیں کی ، بلکہ خود بخود قے آئی ، اگرچہ منہ بھر ہو یا جان بوجھ کر قے کی ، لیکن منہ بھر نہ ہو،  تو اس کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔                            (فتاوی شامی ، ج 3 ، ص 450 ، مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم