بچے پر روزہ کب فرض ہوتا ہے ؟
ریفرینس نمبر: 47
تاریخ اجراء:17 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 28 مارچ 2024 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
کتنی عمر کے بچے / بچی پر روزہ فرض ہوتا ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بچی / بچی جب تک بالغ نہ ہو جائیں، ان پر روزہ فرض نہیں ہوتا ،البتہ جس طرح نا بالغ بچوں کو نماز کا عادی بنانے کے لیےانہیں نماز کی ترغیب اور حکم دیا جاتا ہے، اسی طرح روزوں کے حوالے سے حکم ہے کہ صحیح قو ل کے مطابق روزے کا حکم نماز کی طرح ہی ہے ، لہٰذا بچہ یا بچی سات سال کے ہو جائیں اور روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ، روزہ ان کے لیے ضرر (نقصان) کا سبب نہ ہو، تو ان کے ولی پر لازم ہے کہ انہیں روزے کا حکم دے اور روزہ رکھوائے ، پھر جب دس سال کے ہو جائیں ، تو ولی پر واجب ہے کہ روزہ رکھنے کے معاملےمیں ان پر سختی کرے اور نہ رکھنے کی صورت میں انہیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے سزا دےجیسا کہ سات سال کے بچے کو نماز کا حکم دینا اور دس سال کا ہو جانے پر نماز کے معاملے میں سختی کرنا ، نہ پڑھنے کی صورت میں سزا دینے کا حکم ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ346،345،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
ضروری تنبیہ : اولاً بچوں کو پیار محبت سے ہی سکھانا چاہیے، لیکن اگر کسی خاص صورت میں مارنے کی حاجت ہو، تواس کے لیے شرعی طور پر حدود و شرائط مقرر ہیں، ان سے تجاوز کرنا ، جائز نہیں ۔ شرائط درج ذیل ہیں :
(۱)ضربِ شدید (سخت مار) نہ ماری جائےجیسے ڈنڈے وغیرہ سےسخت نہ مارا جائے۔
(۲)چہرے پر نہ مارا جائے ۔
(۳)تین ضربوں سے کم مار ہو ۔
ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مارنے کی اجازت ہوگی، لیکن ان حدودو شرائط سے تجاوز کرنا ، جائز نہیں ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


