اوجھڑی کھانے کا شرعی حکم ؟

اوجھڑی کھانے کا شرعی حکم

ریفرینس نمبر: 65

تاریخ اجراء:18 شوال المکرَّم 1445 ھ بمطابق 27 اپریل 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

حلال جانور کی اوجھڑی کھانا ، جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

۔حلال مذبوح (شرعی طریقے کے مطابق ذبح شدہ) جانور کی اوجھڑی کھانا بھی ناجائز و گناہ ہے۔

امامِ اہلسنت مجددِ دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ” یہ تو سات بہت کتب مذہب ، متون و شروح و فتاوٰی میں مصرح اور علامہ قاضی بدیع خوارزمی صاحب غنیۃ الفقہاء و علامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ و علامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار وغیرہم علماء نے دو چیزیں اور زیادہ فرمائیں : (۸) نخاع الصلب یعنی حرام مغز ۔ اس کی کراہت نصاب الاحتساب میں بھی ہے (۹) گردن کے دو پٹھے جو شانوں تک ممتد ہوتے ہیں اور فاضلین اخیرین وغیرہما نے تین اور بڑھائیں ۔ (۱۰) خونِ جگر ۔ (۱۱) خون طحال ۔ (۱۲) خون گوشت یعنی دم مسفوح نکل جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتا ہے ۔۔۔۔۔ قاقول : و باللہ التوفیق و بہ الوصول الی اوج التحقیق علماء کی ان زیادات سے ظاہر ہوگیا کہ سات میں حصر مقصود نہ تھا ، بلکہ صرف باتباع نظم حدیث و نص امام ان پر اقتصار واقع ہوا اور خود ان علمائے زائدین نے بھی قصد استیعاب نہ فرمایا . یہ امر انہیں عبارات مذکورہ سے ظاہر ….. واضح ہوا کہ عامہ کتب میں لفظ سبع (سات) صرف باتباع حدیث ہے . جس طرح کتبِ کثیرہ میں شاۃ (بکری) کی قید کما مر عن تنویر الابصار و مغنی المستفتی و مثلہ فی غیرہما ، حالانکہ حکم صرف بکری سے خاص نہیں ، یقینا سب جانوروں کا یہی حکم ہے ۔۔۔۔۔ تو جیسے لفظِ شاۃ محض باتباع حدیث واقع ہوا اور اس کا مفہوم مراد نہیں ، یونہی لفظِ سبع اور اہل علم پر مستتر نہیں کہ استدلال بالفحوٰی یا اجرائے علت منصوصہ خاصہ مجتہد نہیں ۔ کما نص علیہ العلامۃ الطحطاوی تبعاً لمن تقدمہ من الاعلام  اور یہاں خود امام مذہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشیاءِ ستہ کی علت کراہت پر نص فرمایا کہ خباثت ہے . اب فقیر متوکلاً علی اللہ تعالیٰ کوئی محل شک نہیں جانتا کہ دُبر یعنی پاخانے کا مقام ، کرش یعنی اوجھڑی ، امعاء یعنی آنتیں بھی اس حکم کراہت میں داخل ہیں . بیشک دُبرفرج وذکر سے اور کرش و امعاء مثانہ سے اگر خباثت میں زائد نہیں ، تو کسی طرح کم بھی نہیں ۔ فرج وذکر اگر گزر گاہ بول ومنی ہیں دُبر گزر گاہِ سرگین ہے ، مثانہ اگر مَعْدَنِ بول ہے ، شکنبہ و رودہ مَخْزَنِ فَرث ہیں ۔ اب چاہے اسے دلالۃ النص سمجھئے ، خواہ اجرائے علتِ منصوصہ ۔۔۔۔ اب سات کے سہ گونہ سے بھی عدد بڑھ گیا اور ہنوز اور زیادات ممکن ۔ وہ سات اشیاء حدیث میں آئیں، اور پانچ چیزیں کہ علماء نے بڑھائیں اور دس فقیر نے زیادہ کیں ۔“   (فتاوٰی رضویہ ، ج 20 ، ص 240 تا 236 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور، ملتقطاً)

حلال جانور کے کُل 22 اجزاء کا کھانا ممنوع و مکروہ ہے۔ جیسا کہ امام اہلسنت علیہ الرحمۃ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ”حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں ، مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں (۱) رگوں کا خون ۔ (۲) پتا ۔ (۳) پُھکنا۔ (۴) و (۵) علامات مادہ ونر ۔ (۶) بیضے (۷) غدود ۔ (۸) حرام مغز ۔ (۹) گردن کے دو پٹھے کہ شانوں تک کھنچے ہوتے ہیں ۔ (۱۰) جگر کا خون ۔ (۱۱) تلی کا خون ۔ (۱۲) گوشت کا خون کہ بعد ذبح گوشت میں سے نکلتا ہے ۔ (۱۳) دل کا خون ۔ (۱۴) پت یعنی وہ زرد پانی کہ پتے میں ہوتا ہے ۔ (۱۵) ناک کی رطوبت کہ بھیڑ میں اکثر ہوتی ہے ۔ (۱۶) پاخانہ کا مقام ۔ (۱۷) اوجھڑی . (۱۸) آنتیں ۔ (۱۹) نطفہ ۔ (۲۰) وہ نطفہ کہ خون ہو گیا ۔ (۲۱) وہ کہ گوشت کا لوتھڑا ہو گیا ۔ (۲۲) وہ کہ پورا جانور بن گیا اور مردہ نکلا یا بے ذبح مر گیا۔ “   (فتاوٰی رضویہ ، ج 20 ، ص 241 تا 240 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

فتاوی فیض الرسول میں ہے : ”اوجھڑی اور آنتیں کھانا درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ} ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خبائث یعنی گندی چیزیں حرام فرمائیں گے اور خبائث سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے سلیم الطبع لوگ گِھن کریں اور انہیں گندی جانیں . امام اعظم سیّدنا ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اماالدم فحرام بالنص و اکرہ الباقیۃ لانھا مما تستخبثھا الانفس قال اللّٰہ تعالٰی : {وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰئِثَ} اس سے معلوم ہوا کہ حیوان ماکول اللحم کے بدن میں جو چیزیں مکروہ ہیں ان کا مدار خُبث پر ہے اور حدیث میں مثانہ کی کراہت منصوص ہے اور بیشک اوجھڑی اور آنتیں مثانہ سے خباثت میں زیادہ نہیں ، تو کسی طرح بھی کم نہیں / مثانہ اگر معدن بول ہے ، تو آنتیں اور اوجھڑی مَخْزَنِ فَرث ہیں ، لہٰذا دلالۃ النص سمجھا جائے یا اجرائے علت منصوصہ بہرحال اوجھڑی اور آنتیں کھانا ، جائز نہیں ۔ ھٰکذا قال الامام احمد رضا رضی اللہ عنہ وارضاہ عنا واللہ تعالیٰ و رسولہ الاعلٰی اعلم جل جلالہ و صلی المولٰی علیہ وسلم “   (فتاویٰ فیض الرسول ، ج 2 ، ص 433)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم