ابابیل حلال پرندہ ہے؟

ابابیل حلال پرندہ ہے ؟

ریفرینس نمبر: 68

تاریخ اجراء:28 شوال المکرَّم 1445 ھ بمطابق 07 مئی 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

کیا بابیل شرعی طور پر حلال پرندہ ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فقہ حنفی کے قواعد کی روشنی میں مور حلال ہے ، اس لئے کہ پرندوں کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ ہر وہ پرندہ جس کے پنجے ہوں اور وہ اُن پنجوں سے شکار بھی کرتا ہو ، تو وہ پرندہ حرام ہو گا اور جس کے پنجے ہی نہ ہوں یا پنجے تو ہوں ، لیکن وہ اُن سے شکار نہ کرتا ہو ، تو وہ پرندہ حلال ہے ، اس تفصیل کے مطابق دیکھا جائے ، تو ابابیل حلال پرندہ ہے نیز اس کےحلال ہونے پر فقہائےکرام کی تصریحات بھی موجود ہیں  . حضرت سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم عن کل ذی ناب من السباع و عن کل ذی مخلب من الطیر ” ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ہر نوکیلے دانت والے درندے اور پنجے والے پرندے (کو کھانے) سے منع فرمایا ۔   (صحیح مسلم ، ج 2 ، ص 147 ، قدیمی کتب خانہ ، کراچی) جوہرہ نیرہ میں ہے : “ (لایجوز اکل کل ذی ناب من السباع و لاذی مخلب من الطیر) المراد من ذی الناب ان یکون لہ ناب یصطاد بہ و کذا من ذی المخلب ” ترجمہ : نوکیلے دانت والے درندوں اور پنجوں والے پرندوں کا کھانا ، جائز نہیں ہے اور نوکیلے دانتوں سے مراد یہ کہ اُس کے ایسے نوکیلے دانت ہوں ، جن سے وہ شکار کرتا ہو اور اسی طرح پنجوں سے مراد یہ ہے کہ اُن سے وہ پرندہ شکار بھی کرتا ہو ۔   (الجوھرۃ النیرۃ ، ج 2 ، ص 265 ، قدیمی کتب خانہ ، کراچی) اصولِ شرع کی روشنی میں ابابیل کا حلال ہونا واضح ہے . البتہ اس کے علاوہ کتب میں اس کے حلال ہونے کی صراحت بھی موجود ہے . چنانچہ علامہ ہاشم ٹھٹھوی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ’’ فاکھۃ البستان ‘‘ میں ابابیل کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : “حکمھا حکم الخطاطیف لانھا منھا …. فی فتاوی قاضی خان و الظھیریۃ لاباس باکل الخطاف لانھا لیست من الطیور التی ھی ذوات المخالب ” ترجمہ : ابابیل کا حکم وہی ہے جو خطاطیف کا ہے،اس لئے کہ ابابیل اسی کی ایک قسم ہے … فتاوی قاضی خان اور فتاوی ظہیریہ میں ہے : خطاف کھانے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ یہ پنجوں والا پرندہ نہیں ہے۔   (فاکھۃ البستان ، ص 336 ، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم