تراویح نہ پڑھی ، تو روزے کا حکم
ریفرینس نمبر: 82
تاریخ اجراء:09 رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 10 مارچ 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
اگر کوئی تراویح کی نماز نہ پڑھے ، تو کیا اس کا روزہ ہو جائے گا ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
روزہ اور تراویح مستقل الگ الگ عبادات ہیں ، ان میں سے کسی ایک کی ادائیگی دوسرے پر موقوف نہیں ، لہذا اگر کسی نے روزہ رکھا اور تراویح ادا نہیں کی ، تو اُس کا روزہ ادا ہوجائے گا ، البتہ بلا عذر ایک بار بھی تراویح چھوڑنا اساءت (بری بات) ہے اور چھوڑنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے۔
مراقی الفلاح میں ہے : ”وهی سنۃ الوقت لا سنۃ الصوم فی الأصح فما صار أهلا للصلاة فی آخر اليوم يسن له التراويح كالحائض إذا طهرت و المسافر و المريض الفطر“ ترجمہ : اصح قول کے مطابق تراویح وقت کی سنت ہے ، روزے کی سنت نہیں ، تو جو دن کے آخری حصے میں نماز کا اہل ہوا ، اُس کے لئے تراویح سنت ہے جیسا کہ حیض والی عورت جب پاک ہو جائے ، اسی طرح مسافر اور روزہ چھوڑنے والا مریض (بھی تراویح پڑھیں گے) ۔ (مراقی الفلاح، ص159، المكتبۃ العصريۃ، بیروت)
امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن تراویح چھوڑنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے تین شب تراویح میں امامت فرما کر بخوفِ فرضیت ترک فرما دی ، تو اس وقت تک وہ سنت مؤکدہ نہ ہوئی تھی ، جب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اِجرا (جاری) فرمایا اور عامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس پر مجتمع ہوئے ، اس وقت سے وہ سنت مؤکدہ ہوئی ، نہ فقط فعلِ امیر المؤمنین سے ، بلکہ ارشاداتِ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے ۔۔۔۔ اب ان کا تارک ضرور تارکِ سنتِ مؤکدہ ہے اور ترک کا عادی فاسق و عاصی (گنہگار ہے) ۔ (فتاوی رضویہ، ج7، ص471، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


