جمعہ کی مبارک باد دینا کیسا؟

جمعہ کی مبارکباد دینا کیسا؟

ریفرینس نمبر: 03

تاریخ اجراء:02 جمادی الاولیٰ 1445 ھ بمطابق 17 نومبر 2023 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

عام طور پر مسلمانوں میں رائج ہے کہ جمعہ کے دن بالمشافہ ملاقات کے وقت یا واٹس ایپ وغیرہ پر ایک دوسرے کو جمعہ مبارک کہتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سنت سے ثابت نہیں ، یہ عمل بدعت  ہے ، لہٰذا اس سے بچنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کی مبارکباد دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جمعہ عام دنوں کی طرح نہیں ، بلکہ یہ سب دنوں کا سردار ہے اور حدیث مبارک میں جمعہ کو مسلمانوں کے لئے یومِ عید قرار دیا گیا ہے ، تو جس طرح عید خوشی کا دن ہوتا ہے اور اس دن لوگ مبارکباد دیتے ہیں ، اسی طرح جمعہ بھی مسلمانوں کے لئے خوشی کا دن ہے ، تو خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جمعہ کی مبارک دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ عرفِ عام میں مبارک دینے کا مطلب دعائے برکت ہے ، تو اس اعتبار سے بھی جمعہ کے دن مبارک دینے اور دعائیہ کلمات کہے جائیں ، تو اس میں شرعاً کیا مضائقہ ہو سکتا ہے کہ جس طرح عمومی ایام میں کسی کو دعائے برکت دی جا سکتی ہے ، جمعہ کے دن بھی دے سکتے ہیں۔ تو بالجملہ جمعہ کے دن مبارکباد دینے کی ممانعت پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے اور شریعت کے عمومی اصولوں کے تحت اس کا جواز واضح ہے ، لہٰذا جمعہ کے دن باہم ملاقات کے وقت یا واٹس ایپ وغیرہ پر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا بالکل جائز ہے۔

دعا کرنا قرآن کریم کا حکم:

مطلق دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:﴿ اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ﴾ ترجمہ کنز الایمان: دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔                                      (پارہ 2، سورۃ البقرۃ2، آیت186)

ایک اور مقام پرارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ اُدْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ ترجمۂ کنز الایمان: مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا۔   (پارہ 24، سورۃ المؤمن40، آیت60)

جمعہ کا دن عید کا دن ہے:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان ھذا یوم عید جعلہ اللہ للمسلمین“ ترجمہ: جمعہ کے دن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے عید کا دن بنایا ہے۔   (سنن ابن ماجہ، ج1،ص349، الرقم 1098، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت)

نیز ایک چیز کےسنت سے ثابت نہ ہونے سے ہر گز یہ لازم نہیں آتا کہ وہ ناجائز ہو،کیونکہ کئی امور ایسے ہیں جو سنت نہیں، لیکن پھر بھی جائز، بلکہ مستحب ہیں جیسے کسی صحابی یا بزرگ کےنام کے ساتھ رضی اللہ عنہ یارحمۃ اللہ علیہ لگانا سنت نہیں، لیکن ناجائز بھی نہیں، بلکہ علماء نے اِسے مستحب قرار دیاہے۔

 تنویر الابصار میں ہے: ’’یستحب الترضی للصحابۃ والترحم للتابعین ومن بعدھم من العلماء والعباد وسائر الاخیار‘‘ ترجمہ: صحابہ کرام کے اسماء کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ اور تابعین اور اُن کے بعد کے علماء و صالحین کے لئے ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کا استعمال مستحب ہے۔   ( تنویر الابصار،ج9،ص520،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

اور کسی عمل کا بدعت ہونا بھی اس کے  ناجائز ہونے کی دلیل نہیں، بلکہ بدعت وہ ممنوع ہوتی ہے کہ جو اسلام کے کسی اصول سے ٹکرائے یا سنت کو ختم کرنے والی ہو۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا ولا ینقص من اجورھم شئی ومن سن فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا ولا ینقص من اوزارھم شئی‘‘ ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی نیا کام ایجاد کیا، اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا، توجس نے اُس پر عمل کیا اُس کی مثل اُسے (جس نے وہ کام ایجاد کیا،اُس کو) بھی اجر دیا جائےگا اور اُن کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں کوئی بُرا کام نکالا، اُس کے بعد اُس پر عمل کیا گیا،تواُس پرعمل کرنے والے کے گناہ کے برابر اُسے (جس نے بُرا کام نکالا،اُس کو) بھی گناہ ملے گا اور اُن کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔   (صحیح مسلم،ج1،ص341،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

ایک دوسری حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے:’’شر الامور محدثاتھا و کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ ترجمہ: امور میں سے بُری ترین نئی باتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔                            (مشکوٰۃ المصابیح،ج1،ص27،مکتبہ رحمانیہ،لاھور)

مرقاۃ میں ہے: ’’ای کل بدعۃ سیئۃ ضلالۃ لقولہ علیہ السلام:’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ‘‘الخ‘‘ ترجمہ: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ہر بدعت سیئہ (بُری بدعت) گمراہی ہے، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اسلام میں اچھی بات نکالی۔۔(مکمل حدیث پاک اوپر گزر چکی۔ مراد یہ ہے وعید بری بدعت کے بارے میں ہے ورنہ اچھی بدعت کا ثبوت دوسری حدیث میں موجود ہے)‘‘۔   (مرقاۃ المفاتیح،1،ص337،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’قال الشافعی البدعۃ بدعتان محمودۃ ومذمومۃ فما وافق السنۃ فھو محمودۃ وما خالفھا فھو مذموم‘‘ ترجمہ: امام شافعی علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا: بدعت دو اقسام پر مشتمل ہے،(۱) بدعت محمودہ یعنی حسنہ اور(۲) بدعت مذمومہ یعنی سیئہ۔جو سنت کے موافق ہو،وہ بدعت محمودہ اور جو سنت کے خلاف ہو،وہ بدعت مذمومہ ہے۔   (فتح الباری،ج13،ص315،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

نیز  علمائے کرام کے نزدیک  ایک کام  بدعت ہونے کے باوجود واجب و مستحب یا جائزبھی ہو سکتا ہے۔ علامہ ابن حجر ہیتمی مکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’تنقسم الی خمسۃ احکام یعنی الوجوب والندب الخ وطریق معرفۃ ذالک ان تعرض البدعۃ علی قواعد الشرع فای حکم دخلت فیہ فھی منہ فمن البدع الواجبۃ تعلم النحو الذی یفھم بہ القرآن والسنۃ ومن البدع المحرمۃ مذھب نحو القدریۃ ومن البدع المندوبۃ احداث نحو المدارس والاجتماع لصلاۃ التراویح و من البدع المباحۃ المصافحۃ بعد الصلاۃ الخ‘‘ ترجمہ: بدعت کی پانچ اقسام ہیں: بدعت واجبہ ومستحبہ وغیرہ اِسکی پہچان کا طریقہ یہ ہے کہ اُس بدعت کو قواعدِ شرع پر پیش کیا جائے، تو جس حکم کے تحت وہ داخل ہو گی، اُس پر بھی وہ ہی حکم لگے گا مثلا بعض بدعتیں واجب ہیں جیسے قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے علم نحو سیکھنا، بعض حرام ہیں جیسے قدریہ وغیرہ گمراہوں کا مذہب،بعض مستحب ہوتی ہیں جیسے مدارس کا قیام اور تراویح کے لئے جمع ہونا، بعض مباح ہیں جیسے نماز کے بعد مصافحہ کرنا۔                                                                                                                                         (فتاوی حدیثیہ،ص150،میر محمد کتب خانہ،کراچی)

اگر کوئی اسے ناجائز سمجھتا ہے یا ممنوعِ شرعی قرار دیتا ہے، تو اس پر واضح نصِ شرعی  پیش کرنا ضروری ہے، کیونکہ کسی کام کو مکروہ وناجائز کہنے کے لئےاُس کےعدمِ جواز کی خاص دلیل ہوناضروری ہے۔ چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’ثبوت الکراھۃ اذلا بد لھا من دلیل خاص‘‘ ترجمہ: کسی چیز کو مکروہ کہنے کے لئےاُس کے مکروہ ہونے پر خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے۔   (ردالمحتار،ج1،ص267،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

نوٹ : مختلف مواقع پر مسلمانوں میں رائج مبارکباد دینے کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے ایک مکمل رسالہ بنام ”وصول الامانی باصول التھانئ“  تحریر فرمایا ہے۔ تفصیلی معلومات  کے لیے اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم