کارٹون کی تصویر بنانا
ریفرینس نمبر: 12
تاریخ اجراء:04 جمادی الاخریٰ 1445 ھ بمطابق 18 دسمبر 2023 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
کیاڈرائنگ میں مختلف قسم کے کارٹونز کی تصاویر بنانا، جائز ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بغیر ضرورت یا بغیر شرعی رخصت کسی جاندارکی تصویر بنانا، ناجائز و گناہ ہے ،جبکہ تصویر میں چہرہ واضح طور پر نظر آرہا ہو، کیونکہ اسلام میں بلا عذرشرعی تصویر بنانا ، ناجائز و گناہ ہے۔ یہ توجاندار کی تصویر کا حکم ہے ، البتہ ہمارے ہاں جو کارٹونز کی تصاویر ہوتی ہیں، عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں:
(1) ایسے کارٹون کہ جو ذی روح (روح والی چیز) کی حکایت نہیں کرتے ، ان کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا ، بلکہ وہ محض تخیلاتی اور فرضی ہیں جیسے اسپائڈر مین یا بیٹ مین وغیرہ کہ وہ جاندار کی تصویر کے حکم میں ہی نہیں ہے، لہٰذا ڈرائنگ میں ایسے کارٹون کی تصویر بنانا حرام نہیں ہے، جبکہ ممانعت کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو ۔
(2)ایسے کارٹون کہ جو کسی ذی روح کی حکایت کرے جیسے کسی شخص یا جانور وغیرہ کا کارٹون ۔ایسے کارٹون کی تصویربنانا ، جائز نہیں۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےارشادفرمایا: ’’ان اشد الناس عذاباعند الله يوم القيامة المصورون‘‘ ترجمہ: بےشک بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے ہاں لوگوں میں سے سب سے زیادہ عذا ب(کسی جاندار کی) تصویر بنانے والوں کو ہو گا ۔ (صحیح بخاری ،ج2،ص880،قدیمی کتب خانہ،کراچی)
اورنبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ”من صور صورةفان الله معذبه حتى ينفخ فيها الروح وليس بنافخ فيها ابدا‘‘ ترجمہ: جس نے (کسی جاندار) کی تصویر بنائی ، تو اللہ تعالیٰ اُس وقت تک اُسےعذاب میں مبتلا رکھے گاجب تک وہ (تصویر بنانے والا) اس تصویرمیں روح نہ ڈال دےاور وہ اس میں کبھی بھی روح نہیں دال سکے گا۔ (صحیح بخاری،ج1،ص296،قدیمی کتب خانہ،کراچی)
امام ِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : “تصویر کسی طرح استیعاب ما بہ الحیاۃ نہیں ہوسکتی ،فقط فرق حکایت و فہمِ ناظر کا ہے، اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے ، تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایتِ حیات نہ کرے ، ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حیّ کی صورت نہیں ، میت و بے روح کی ہے ، تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔۔۔ دیکھئے جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے بھی عرض کی کہ ان تصویروں کے سرکاٹنے کاحکم فرمادیجئے جس سے ان کی ہیأت درخت کے مثل ہوجائے حیوانی صورت نہ رہے اس کا صریح مفاد تو وہی ہے کہ بے قطع راس حکم منع نہ جائے گا کہ بغیر اس کے نہ پیڑ کی مثل ہوسکتی ہیں نہ صورت حیوانی سے خارج ۔۔۔ اقول: اور اب عجب نہیں کہ چہرہ کے سوادیگر اعضائے مدارِحیات کے عدم اصلی واعدام بنقض وابطال میں معنی مقصود بحکایۃ الحیاۃ عرفًا مفہوم ہونے نہ ہونے سے بعض صورمیں فرق پیدا ہو بخلاف چہرہ کہ سرے سے نہ بنایا یا بنا ہوا توڑدیا بہرحال حکایت نہیں ہوتی کما لا یخفی“ (فتاویٰ رضویہ ،24ج ،ص587 تا 589، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
نوٹ: جاندار کی تصویر والا یہ حکم مجسمے کی صورت میں تصویر بنانے یا کسی صفحے وغیرہ پر ڈرائنگ کرنے یا الیکڑانک ڈیوائس پر ڈرائنگ کر کے اس کا پرنٹ نکلوانے کے متعلق ہے، بقیہ اگر کوئی الیکڑانک ڈیوائس پر ہی ڈرائنگ کر کے اسی میں سیو کر لے، تو اس صورت میں جاندار کی تصویر بنانا بھی جائز ہو گا، بشرطیکہ جائز منظر پر مشتمل ہو اور ممانعت کی کوئی اور وجہ نہ ہو۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


