امام پر سجدہ سہو نہیں تھا اور اس نے سجدہ سہو کیا، تو۔۔۔؟

امام پر سجدہ سہو نہیں تھا اور اس نے سجدہ سہو کیا، تو۔۔۔؟

ریفرینس نمبر: 17

تاریخ اجراء:28 جمادی الاخریٰ 1445  ھ بمطابق 11 جنوری 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

اگر امام پر سجدۂسہو لازم نہیں تھا ،لیکن پھر بھی اُس نے سجدہ کر لیا،تو امام اور سب مقتدیوں کی  نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں مسبوق (جس کی کوئی رکعت رہتی ہو، اُس) کے علاوہ تمام افراد (امام اور مقتدیوں، سب) کی نماز ہو جائے گی ۔ البتہ مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی، اس لئے کہ جس وقت امام نے قصداً سلام پھیرا،اسی وقت وہ نماز سے باہر نکل گیا، تو مسبوق اس کی اقتداء میں ہی نہیں رہا ، پھراس نے سجدہ وغیرہ  جو افعال اس کے ساتھ ادا کئے، وہ محل انفراد میں اتباع  قرار پائی اور محل انفراد میں کسی کی اتباع سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، لہٰذا اس صورت میں مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔ البتہ اگر اُسےیہ معلوم ہی نہ ہوا کہ امام پر سجدۂ سہو نہیں تھا، تو اُس کی نماز فاسد ہونے کا حکم نہیں ہو گا۔

درمختار میں ہے: ’’لو ظن الامام السھو فسجد لہ فتابعہ فبان ان لاسھو فالاشبہ الفساد لاقتدائہ فی موضع الانفراد‘‘ ترجمہ: اگر امام نے سہو کا گمان کرتے ہوئے سجدۂسہو کرلیا اورمسبوق نے اُس کی پیروی کی اور بعد میں ظاہر ہوا کہ اُس پرسجدۂ سہو لازم نہیں تھا، تواشبہ یہ ہے کہ  محل انفراد میں اقتداء کی وجہ سےمسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی۔   (درمختار،ج2،ص422،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’لو تابعہ المسبوق ثم تبین ان لاسھو علیہ ان علم ان لاسھو علی امامہ فسدت وان لم یعلم انہ لم یکن علیہ فلا تفسدوھو المختار ‘‘ ترجمہ: مسبوق نے سجدۂ سہو میں امام کی اتباع کی اور پھر ظاہر ہوا کہ امام پر تو سجدۂ سہو لازم ہی نہیں تھا،اگر مقتدی کو اس بات کا علم ہوگیا کہ اُس کے امام پر سجدۂسہو نہیں تھا،تواس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر اُسے معلوم نہ ہوا،تو اُس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ یہی  فقہائے کرام کامختار (پسندیدہ) مذہب ہے۔                                                  (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،ص465 ،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اگر سجدۂ سہو میں مسبوق اتباعِ امام کرے،بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا، اُس کی نماز فاسد ہو جائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محل انفراد میں اقتدا کیا تھا،ہاں!اگرمعلوم نہ ہوا، تو اس کے لئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح وصواب پر حمل کرنا چاہئے۔‘‘                                                                (فتاوی رضویہ،ج8،ص185،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

پوچھی گئی صورت میں مسبوق (جس کی کوئی رکعت رہتی ہو، اُس) کے علاوہ تمام افراد (امام اور مقتدیوں، سب) کی نماز ہو جائے گی ۔ البتہ مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی، اس لئے کہ جس وقت امام نے قصداً سلام پھیرا،اسی وقت وہ نماز سے باہر نکل گیا، تو مسبوق اس کی اقتداء میں ہی نہیں رہا ، پھراس نے سجدہ وغیرہ  جو افعال اس کے ساتھ ادا کئے، وہ محل انفراد میں اتباع  قرار پائی اور محل انفراد میں کسی کی اتباع سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، لہٰذا اس صورت میں مسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی ۔ البتہ اگر اُسےیہ معلوم ہی نہ ہوا کہ امام پر سجدۂ سہو نہیں تھا، تو اُس کی نماز فاسد ہونے کا حکم نہیں ہو گا۔

درمختار میں ہے: ’’لو ظن الامام السھو فسجد لہ فتابعہ فبان ان لاسھو فالاشبہ الفساد لاقتدائہ فی موضع الانفراد‘‘ ترجمہ: اگر امام نے سہو کا گمان کرتے ہوئے سجدۂسہو کرلیا اورمسبوق نے اُس کی پیروی کی اور بعد میں ظاہر ہوا کہ اُس پرسجدۂ سہو لازم نہیں تھا، تواشبہ یہ ہے کہ  محل انفراد میں اقتداء کی وجہ سےمسبوق کی نماز فاسد ہو جائے گی۔   (درمختار،ج2،ص422،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’لو تابعہ المسبوق ثم تبین ان لاسھو علیہ ان علم ان لاسھو علی امامہ فسدت وان لم یعلم انہ لم یکن علیہ فلا تفسدوھو المختار ‘‘ ترجمہ: مسبوق نے سجدۂ سہو میں امام کی اتباع کی اور پھر ظاہر ہوا کہ امام پر تو سجدۂ سہو لازم ہی نہیں تھا،اگر مقتدی کو اس بات کا علم ہوگیا کہ اُس کے امام پر سجدۂسہو نہیں تھا،تواس کی نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر اُسے معلوم نہ ہوا،تو اُس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔ یہی  فقہائے کرام کامختار (پسندیدہ) مذہب ہے۔   (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،ص465 ،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’اگر سجدۂ سہو میں مسبوق اتباعِ امام کرے،بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا، اُس کی نماز فاسد ہو جائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محل انفراد میں اقتدا کیا تھا،ہاں!اگرمعلوم نہ ہوا، تو اس کے لئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح وصواب پر حمل کرنا چاہئے۔‘‘                                                                (فتاوی رضویہ،ج8،ص185،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم