نمازِ جنازہ میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ

نمازِ جنازہ میں سلام پھیرنے کا مسنون طریقہ

ریفرینس نمبر: 23

تاریخ اجراء:01 شعبان المعظم 1445ھ بمطابق 12 فروری 2024ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

نمازِ جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر سلام پھیرنا ہوتا ہے یا ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہیے؟ درست اور مسنون طریقہ بیان فرما دیجئے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اولاً یہ بات ذہن نشین فرما لیجئے کہ نماز کا ہر وہ قیام کہ جس میں قرار( ٹھہرنا) ہو اور اُس میں کوئی مسنون ذکر ہو، تو اس میں ہاتھ باندھنا سنت ہے ، جیسے ثناء اور دعائے قنوت پڑھتے ہوئے قیام میں ہاتھ باندھے جاتے ہیں اور جس قیام میں کوئی مسنون ذکر نہ ہو، تو اس میں ہاتھ نہ باندھنا سنت ہے، بلکہ یونہی ٹکا دینا سنت ہے جیسا کہ تکبیراتِ عیدین کے وقت  ہاتھ کھول کر رکھنا سنت ہے ، اس لیے کہ نہ تو قرار( ٹھہراؤ) والا قیام ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مسنون  ذکر ہے۔ اس تفصیل کے مطابق نمازِ جنازہ کی چوتھی تکبیر کے بعد جو قیام ہوتا ہے، اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس  قیام میں جنازے کی دیگر تکبیرات کے بعد ہونے والے قیام کی طرح قرار اور ذکرِ مسنون موجود نہیں ہے، ،بلکہ اس تکبیر کے بعد نماز سے نکلنے کا وقت ہے، لہٰذا چوتھی تکبیر کے  بعد ہاتھ چھوڑ دینا اور  ہاتھ چھوڑے ہونے کی حالت میں سلام پھیرنا سنت اور دُرست طریقہ ہے ، ہاتھ باندھ کر سلام پھیرنا یا دائیں طرف سلام پھیر کر دایاں ہاتھ اور بائیں طرف سلام پھیر کر بایاں ہاتھ چھوڑنا سنت  نہیں ۔ البتہ  اگر کسی نے ایسے  کر لیا ہو،تو اس کی نماز ہو گئی ، اس وجہ سے کہ اصلِ نماز یا نماز کے کسی رکن میں خلل واقع نہیں ہوا۔

تنویرالابصار مع الدر میں ہے: ”وهوسنة قیام له قرار فیه ذکر مسنون (ای: مشروع فرضا اوکان واجبا او سنۃ) فیضع حالۃ الثناء و فی القنوت و تکبیرات الجنائز“ ترجمہ: نماز میں ہاتھ باندھنا اس قیام کی سنت ہے، جس میں قرار اور ذکرِ مسنون یعنی مشروع ذکر ہو، خواہ  فرض،واجب یا سنّت ہو،لہٰذا ثناء،دعائے قنوت اور جنازے کی چار تکبیروں تک ہاتھ باندھ کر رکھے گا۔  (تنویر الابصار مع درمختار،ج2،ص 229 ، 230،مطبوعہ پشاور )

ہدایہ شریف میں ہے: ”والأصل أن كل ‌قيام فیہ ذکر مسنون يعتمد فيه ومالا فلا هو الصحيح“ ترجمہ: اصول یہ ہے کہ ہر وہ قیام جس میں ذکرِ مسنون ہو،اس میں ہاتھ باندھے گا اور وہ قیام جس میں مسنون ذکر نہیں،اس میں ہاتھ نہیں باندھے گا ، یہی صحیح ہے۔   (الھدایہ،  ج1، ص 101،مطبوعہ لاھور)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:”ولا یعقد بعد التکبیر الرابع لانہ لایبقی ذکرمسنون حتی یعقد فالصحیح انہ یحل الیدین ثم یسلم تسلیمتین “ ترجمہ: اورچوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ نہیں باندھے گا،کیونکہ اب کوئی مسنون ذکر باقی نہ رہا  کہ جس کے لیے ہاتھ باندھ رکھے ، لہٰذا صحیح  یہ ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کھول دے ، پھر دونوں سلام پھیرے۔   (خلاصۃ الفتاوی،ج 1، ص 225، مطبوعہ کوئٹہ)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ نمازِ جنازہ میں سلام ہاتھ چھوڑنے کے بعد پھیرنا چاہیے یا قبل ہاتھ چھوڑنے کے، افضل کیا ہے؟ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”ہاتھ باندھنا سُنّت اس قیام کی ہے جس کے لیے قرار ہو ، کما فی الدر المختار وغیرھا من الاسفار سلام وقتِ خروج ہے، اُس وقت ہاتھ باندھنے کی  طرف کوئی داعی نہیں،توظاہر یہی ہےکہ تکبیرِچہارم کے بعد ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔‘‘   (فتاویٰ رضویہ، ج9، ص194، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:”ظاہر ہے کہ چوتھی تکبیر کے بعد نہ قیامِ ذی قرار ہے،نہ اس میں کوئی ذکرِ مسنون، تو ہاتھ باندھے رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔تکبیرِرابع کے بعد خروج عن الصلاۃ  کا وقت ہے اور خروج کے لیے اعتماد (ہاتھ باندھنا ) کسی مذہب میں نہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج9، ص194، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعۃ مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمۃ  نمازِ جنازہ میں ہاتھ کھولنے کےوقت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:”ہاتھ کھول کر سلام پھیرنا چاہئے،یہ خیال کہ تکبیرات میں ہاتھ باندھے رہنا مسنون ہے ،لہذا سلام کے وقت بھی ہاتھ باندھے رہنا چاہئے، یہ خیال غلط ہے ، وہاں ذکر طویل مسنون موجود ہے، اس پر قیاس، قیاس مع الفارق ہے۔“   (فتاوی امجدیہ،ج 1،حصہ 1،ص 317،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم