امیرِ دعوتِ اسلامی کی فقاہت اور معترض کی جہالت
ریفرینس نمبر: 20
تاریخ اجراء:12 رجب المرجب 1445ھ بمطابق 24 جنوری 2024ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
نمازی کے آگے سے گزرنے کا ایک طریقہ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیۃ نے بتایا ہے، جس کا خلاصہ ہے کہ دو شخص نمازی کے آگے سے گزرنا چاہتے ہیں اور سترہ (کوئی آر یا رکاوٹ) بھی نہیں ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک نمازی کے سامنے پیٹھ کر کے کھڑا ہو جائے ۔ اب اس کو آڑ بنا کر دوسرا گزر جائے،پھر دوسرا پہلے کی پیٹھ کے پیچھے نمازی کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوجائے، اب پہلا گزر جائے ،پھر وہ دوسرا جدھرسے آیا تھا، اُسی طرف ہٹ جائے۔ اس بارے میں کئی مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا تو جائز نہیں ، لہٰذا یہ اپنی طرف سے طریقہ نکال لیا ہے اور یہ درست نہیں ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اولاً : عرض ہے کہ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیۃ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے، وہ آپ کا اپنا بیان کردہ نہیں ہے، بلکہ وہ طریقہ فتاوی عالمگیری، فتاوی شامی وغیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے، لہٰذا اس بناء پر امیر اہلسنت پر اعتراض کرنا بالکل درست نہیں ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ” لو مر اثنان یقوم احدھما امامہ و یمر الآخر و یفعل الآخر ھکذا یمران “ ترجمہ: اگر دو شخص نمازی کے سامنے سے گزرنے کا ارداہ کریں (اور سترہ نہ ہو)، تو ان میں سے ایک نمازی کے سامنے کھڑا ہو جائے اور دوسرا اس کے آگے سے گزر جائے اور دوسرا اسی طرح کرے اور یوں دونوں گزر جائیں گے۔ (عالمگیری، ج1،ص104، دار الفکر ، بیروت)
اسی طرح فتاوی شامی میں ہے : ” لو مر اثنان یقوم احدھما امامہ و یمر الآخر و یفعل الآخر ھکذا یمران “ ترجمہ: مفہوم گزر چکا۔ (رد المحتار،ج1،ص636 ، دار الفکر، بیروت)
ثانیاً: اس طریقے پر یہ کہنا کہ امیر اہلسنت نے نمازی کے سامنے سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے، سرے سے یہ بات ہی جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ اس طریقے میں نمازی کے سامنے سے گزرنا کسی طور پر بھی نہیں پایا جا رہا ، بلکہ نمازی کے سامنے ہونا پایا جا رہا ہے اور نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے، صرف نمازی کے سامنےآنا منع نہیں ہے ( جبکہ سامنے آنے والے شخص کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو)۔ اس پر وہ حدیث پاک دلیل ہے کہ جس میں حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :”قد کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقوم فیصلی من اللیل وانی لمعترضۃ بینہ و بین القبلۃ “ ترجمہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات میں نماز پڑھتے تھے ،حالانکہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے اس طرح لیٹی ہوتی تھی کہ قبلہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےدرمیان میں حائل ہوتی تھی ۔ (صحیح بخاری، ج1، ص109، رقم الحدیث 515 ، مطبوعہ بیروت)
اس سے معلوم ہوا کہ محض نمازی کے سامنے کھڑے ہونےیا لیٹے ہونے پر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے احکام مرتب نہیں ہوں گے ، لہٰذا امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیۃ کے بیان کردہ طریقے پر اعتراض درست نہیں ، کیونکہ اس صورت میں بھی نماز ی کے سامنے قبلہ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہونا پایا جا رہا ہے، لیکن اس کے سامنے سے گزرنا نہیں پایا جا رہا ، بلکہ نمازی کے علاوہ ایک دوسرے شخص کے سامنے سے گزرنا پایا جا رہا ہے یا پھر صرف نمازی کے سامنے کھڑے ہو کر واپس پلٹ جانا پایا جا رہا ہے۔
اولاً : عرض ہے کہ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیۃ نے نمازی کے سامنے سے گزرنے کا جو طریقہ بیان فرمایا ہے، وہ آپ کا اپنا بیان کردہ نہیں ہے، بلکہ وہ طریقہ فتاوی عالمگیری، فتاوی شامی وغیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے، لہٰذا اس بناء پر امیر اہلسنت پر اعتراض کرنا بالکل درست نہیں ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے: ” لو مر اثنان یقوم احدھما امامہ و یمر الآخر و یفعل الآخر ھکذا یمران “ ترجمہ: اگر دو شخص نمازی کے سامنے سے گزرنے کا ارداہ کریں (اور سترہ نہ ہو)، تو ان میں سے ایک نمازی کے سامنے کھڑا ہو جائے اور دوسرا اس کے آگے سے گزر جائے اور دوسرا اسی طرح کرے اور یوں دونوں گزر جائیں گے۔ (عالمگیری، ج1،ص104، دار الفکر ، بیروت)
اسی طرح فتاوی شامی میں ہے : ” لو مر اثنان یقوم احدھما امامہ و یمر الآخر و یفعل الآخر ھکذا یمران “ ترجمہ: مفہوم گزر چکا۔ (ردالمحتار،ج1،ص636 ، دار الفکر، بیروت)
ثانیاً: اس طریقے پر یہ کہنا کہ امیر اہلسنت نے نمازی کے سامنے سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے، سرے سے یہ بات ہی جہالت پر مبنی ہے، کیونکہ اس طریقے میں نمازی کے سامنے سے گزرنا کسی طور پر بھی نہیں پایا جا رہا ، بلکہ نمازی کے سامنے ہونا پایا جا رہا ہے اور نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے، صرف نمازی کے سامنےآنا منع نہیں ہے (جبکہ سامنے آنے والے شخص کا چہرہ قبلہ کی طرف ہو)۔ اس پر وہ حدیث پاک دلیل ہے کہ جس میں حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :”قد کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقوم فیصلی من اللیل وانی لمعترضۃ بینہ و بین القبلۃ “ ترجمہ : نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم رات میں نماز پڑھتے تھے ،حالانکہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے اس طرح لیٹی ہوتی تھی کہ قبلہ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےدرمیان میں حائل ہوتی تھی ۔ (صحیح بخاری، ج1، ص109، رقم الحدیث 515 ، مطبوعہ بیروت)
اس سے معلوم ہوا کہ محض نمازی کے سامنے کھڑے ہونےیا لیٹے ہونے پر نمازی کے سامنے سے گزرنے والے احکام مرتب نہیں ہوں گے ، لہٰذا امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیۃ کے بیان کردہ طریقے پر اعتراض درست نہیں ، کیونکہ اس صورت میں بھی نماز ی کے سامنے قبلہ کی طرف چہرہ کر کے کھڑا ہونا پایا جا رہا ہے، لیکن اس کے سامنے سے گزرنا نہیں پایا جا رہا ، بلکہ نمازی کے علاوہ ایک دوسرے شخص کے سامنے سے گزرنا پایا جا رہا ہے یا پھر صرف نمازی کے سامنے کھڑے ہو کر واپس پلٹ جانا پایا جا رہا ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


