بڑے جانور میں طاق حصے رکھنے کا حکم
ریفرینس نمبر: 101
تاریخ اجراء:07 ذوالحجۃ الحرام 1446 ھ بمطابق 04 جون 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
بڑے جانور میں طاق حصے ہونا ضروری ہیں یا جفت حصے بھی ہو سکتے ہیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ مسئلہ بیٹھا ہوتا ہے کہ قربانی میں طاق حصے ہونے چاہئیں / طاق حصے ہونا ضروری ہیں ، جفت حصے نہیں ہو سکتے، جبکہ یہ محض ایک عوامی غلط فہمی ہے ، درست مسئلہ یہ ہے کہ بڑے جانور میں جس طرح طاق(1 ، 3 ، 5 اور 7) حصے ہو سکتے ہیں، اسی طرح جفت (2 ، 4 اور 6) حصے بھی ہو سکتے ہیں، بس یہ ضروری ہے کہ ہر شریک کا کم از کم ایک کامل حصہ ہو، کسی شریک کا ایک کامل حصے سے کم حصہ نہ ہو ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے : ” لا یجوز بعیر واحد و لا بقرۃ واحدۃ عن اکثر من سبعۃ و یجوز ذلک عن سبعۃ و اقل من ذلک “ ترجمہ :ایک اونٹ یا ایک گائے کی قربانی سات سے زیادہ افراد کی طرف سے کرنا جائز نہیں اور سات یا اس سے کم کی طرف سے جائز ہے ۔ (فتاوی عالمگیری، ج5، ص297، مطبوعہ مصر)
بدائع الصنائع میں ہے : ” لا شک فی جواز بدنۃ او بقرۃ عن اقل من سبعۃ بان اشترک اثنان او ثلاثۃ او اربعۃ او خمسۃ او ستۃ فی بدنۃ او بقرۃ “ ترجمہ: اونٹ یا گائے سات افراد سے کم کی طرف سے قربانی کرنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے ، اس طور پر کہ ایک اونٹ یا گائے میں دو یا تین یا چار یا پانچ یا چھ افراد شریک ہوجائیں ۔ (بدائع الصنائع، ج 5، ص571، مطبوعہ مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


