مقروض کو زکوٰۃ کی مد میں قرض معاف کرنا
ریفرینس نمبر: 81
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
زید نے زکوٰۃ ادا کرنی ہے اور اُس نے کسی مستحقِ زکوٰۃ شخص کو قرض دیا ہوا ہے، تو زکوٰۃ کی نیت سے اُسے قرض معاف کر دینے سے زید کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی یا نہیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر زید زکوٰۃ کی نیت سے اپنے مقروض کو قرض معاف کر دے، تو اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ، اس وجہ سے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لئے شریعت مطہرہ نے مخصوص اصول مقرر کئے ہیں، ان کے مطابق کسی مستحقِ زکوۃ مقروض کو اپنا قرض معاف کر دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، کیونکہ اصول یہ ہے کہ کامل مال کی زکوٰۃ ناقص مال سے ادا نہیں ہو سکتی یعنی جو مال موجود ہو، وہ مالِ کامل ہے اور قرض مالِ ناقص، تو قرض معاف کرنے سے موجود مال کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ معاف کر دینے سے معاف شدہ رقم پر لازم ہونے والی زکوۃ ساقط ہوجائے گی ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے : ”رجل له على فقير مال واراد ان يتصدق بماله على غريمه ويحتسب به عن زكاة ماله فقد عرف من اصل اصحابنا رحمهم اللہ تعالى انه لا يتادى بالدين زكاة العين“ ترجمہ :کسی شخص کا مال فقیر کے ذمہ ہے اور وہ شخص اپنا مال اس قرض دار فقیر پر صدقہ کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنے مال کی زکوۃ کے طور پرشمار کر نا چاہتا ہے ، ہمارے اصحاب رحھم اللہ تعالی کے اصول سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ عین کی زکاۃ دین کے ساتھ ادا نہیں کر سکتا ۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الحیل، الفصل الثالث، ج6، ص 391، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارشریعت میں ہے: ”فقیر پر اُس کا قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی اور جُز معاف کیا تو اس جز کی ساقط ہوگئی اور اگر اس صورت میں یہ نیّت کی کہ پورا زکاۃ میں ہو جائے تو نہ ہوگی اور اگر مالدار پر قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط نہ ہوئی بلکہ اُس کے ذمّہ ہے۔۔۔فقیر پر قرض ہے اس قرض کو اپنے مال کی زکاۃ میں دینا چاہتا ہے یعنی یہ چاہتا ہے کہ معاف کر دے اور وہ میرے مال کی زکاۃ ہو جائے یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اُسے زکاۃ کا مال دے اور اپنے آتے ہوئے میں لے لے، اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کرچھین سکتا ہے اور یوں بھی نہ ملے تو قاضی کے پاس مقدمہ پیش کرے کہ اُس کے پاس ہے اور میرا نہیں دیتا۔“ (بھارِشریعت،ج01، حصہ05، ص890، 889، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نوٹ: البتہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ زکوۃ بھی ادا ہو جائے اور مقروض کا قرض بھی معاف ہو جائے اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہے ،تو درست طریقہ یہ ہے کہ اپنے پاس سے زکوۃ ادا کرنے کی نیت سے اسے رقم دے دیں ،پھر اپنے قرض میں ا س سے واپس لے لیں ۔
پوچھی گئی صورت میں اگر زید زکوٰۃ کی نیت سے اپنے مقروض کو قرض معاف کر دے، تو اس طرح زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی ، اس وجہ سے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے لئے شریعت مطہرہ نے مخصوص اصول مقرر کئے ہیں، ان کے مطابق کسی مستحقِ زکوۃ مقروض کو اپنا قرض معاف کر دینے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی، کیونکہ اصول یہ ہے کہ کامل مال کی زکوٰۃ ناقص مال سے ادا نہیں ہو سکتی یعنی جو مال موجود ہو، وہ مالِ کامل ہے اور قرض مالِ ناقص، تو قرض معاف کرنے سے موجود مال کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی۔ ہاں! اتنا ضرور ہے کہ معاف کر دینے سے معاف شدہ رقم پر لازم ہونے والی زکوۃ ساقط ہوجائے گی ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے :” رجل له على فقير مال واراد ان يتصدق بماله على غريمه ويحتسب به عن زكاة ماله فقد عرف من اصل اصحابنا رحمهم اللہ تعالى انه لا يتادى بالدين زكاة العين“ ترجمہ :کسی شخص کا مال فقیر کے ذمہ ہے اور وہ شخص اپنا مال اس قرض دار فقیر پر صدقہ کرنا چاہتا ہے اور اسے اپنے مال کی زکوۃ کے طور پرشمار کر نا چاہتا ہے ، ہمارے اصحاب رحھم اللہ تعالی کے اصول سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ عین کی زکاۃ دین کے ساتھ ادا نہیں کر سکتا ۔ (فتاوی عالمگیری ، کتاب الحیل ، الفصل الثالث ، ج6، ص 391 ، مطبوعہ کوئٹہ)
بہارشریعت میں ہے:”فقیر پر اُس کا قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط ہوگئی اور جُز معاف کیا تو اس جز کی ساقط ہوگئی اور اگر اس صورت میں یہ نیّت کی کہ پورا زکاۃ میں ہو جائے تو نہ ہوگی اور اگر مالدار پر قرض تھا اور کل معاف کر دیا تو زکاۃ ساقط نہ ہوئی بلکہ اُس کے ذمّہ ہے۔۔۔فقیر پر قرض ہے اس قرض کو اپنے مال کی زکاۃ میں دینا چاہتا ہے یعنی یہ چاہتا ہے کہ معاف کر دے اور وہ میرے مال کی زکاۃ ہو جائے یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اُسے زکاۃ کا مال دے اور اپنے آتے ہوئے میں لے لے، اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کرچھین سکتا ہے اور یوں بھی نہ ملے تو قاضی کے پاس مقدمہ پیش کرے کہ اُس کے پاس ہے اور میرا نہیں دیتا۔“ (بھارِشریعت،ج01، حصہ05، ص890 ،889،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
نوٹ : البتہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ زکوۃ بھی ادا ہو جائے اور مقروض کا قرض بھی معاف ہو جائے اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہے ،تو درست طریقہ یہ ہے کہ اپنے پاس سے زکوۃ ادا کرنے کی نیت سے اسے رقم دے دیں ،پھر اپنے قرض میں ا س سے واپس لے لیں ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


