چلتی ٹرین پر نماز
تاریخ اجراء: 06 جمادی الاولی 1446ھ بمطابق 09 نومبر 2024ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
محتصر شرعی مسائل
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
چلتی ٹرین پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
چلتی ہوئی ٹرین پر فرض، واجب اورسنتِ فجرنہیں پڑھ سکتے، کیو نکہ تحقیق یہ ہے کہ فرض، واجب جیسے وتر وغیرہ اورمُلحَق بالواجب (واجب کی طرح حکم رکھنے والی نماز) یعنی سنتِ فجر میں یہ شرط ہے کہ نمازی جہاں نماز پڑھ رہا ہے، اُس کا زمین پر استقرار ہو (یعنی وہ زمین پر ٹھہری ہوئی ہو) اوراستقرارکی یہ شرط زمین اوران چیزوں میں ہے،جو زمین سے متصل ہوں، چونکہ ٹرین زمین پر ہی ہوتی ہے اور چلتی ہوئی ٹرین میں زمین سے اتصالِ قرار نہیں، اس لئے اس پریہ نمازیں نہیں ہوں گی، البتہ اگر نماز کا وقت جارہا ہو اور ٹرین کےرُکنے کی کوئی صورت نہ ہو،تو اُسی میں جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لی جائے اور پھر اترنے کے بعد اُس نماز کا اعادہ کیا جائے، کیونکہ اس میں منع من جہۃ العباد ہوتا ہے (یعنی یہ رکاوٹ بندوں کی جانب سے ہوئی) اور ایسےمنع کی صورت میں شرعاً یہی حکم ہوتا ہےکہ عذر و مجبوری کی صورت میں نماز پڑھ لی جائے اور پھر بعد میں اُس نمازکا اعادہ کیا جائے۔ (ردالمحتار، ج2، ص594، مکتبہ حقانیہ، پشاور) (ردالمحتار، ج1، ص318 ، 319، مکتبہ حقانیہ، پشاور) (فتاوی رضویہ، ج6، ص136 ، 137، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


