کیا ”التحیات“ معراج میں ہونے والا مکالمہ ہے؟
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
محتصر شرعی مسائل
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
التحیات کا پسِ منظر کیا ہے؟ کیا یہ معراج میں اللہ عزوجل اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا مکالمہ ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کئی کتابوں میں مستند علمائے کرام نے یہ بات لکھی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو سفرِ معراج کروایا گیا، تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے کی حمد و ثنا کرتے ہوئے عرض کی : ”التحيات للہ والصلوات والطيبات“ پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ”السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته“ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے عرض کی : ”السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين“ اس کے بعد حضرتِ جبریل امین اور دیگر ملائکہ علیہم السلام نے توحید ورسالت کی گواہی دیتے ہوئے کہا : ”اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله“ اس کے چند حوالے مندرج ذیل ہیں ۔
( تفسیر روح البیان ، ج 5 ،ص125،دار الفکر، بیروت) (مرقاۃ المفاتیح للقاری،ج2،ص832،دار الفکر ، بیروت) (شرح سنن ابی داؤدللعینی ،ج 4،ص238 ، مکتبۃ الرشد ، الریاض )
ٍچونکہ معتبر و مستند علماء نے اسے نقل کیا ہے، لہٰذا ان پر اعتماد کرتے ہوئے اسے واقعہ معراج کے ضمن میں بیان کرنا بالکل درست ہے ۔ البتہ یاد رہے کہ فقہائےکرام اورمحدثین عظام نے اس بات کو بیان کیاہےکہ جب نمازی التحیات میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پر پہنچے ، تو اس کی توجہ کا مرکزرحمت عالمصلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم کی ذاتِ مقدسہ ہو نی چاہیے، محض واقعہ معراج کے اس مکالمے کی نقل و حکایت مقصود نہیں ہونی چاہیے۔
(احیاء العلوم ،ج1،ص202،مکتبۃ الصفا ) (لمعات التنقیح ،ج3،ص45،مطبوعہ لاھور ) (فتاویٰ رضویہ ،ج15،ص206،رضا فاونڈیشن لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


