معراج کے منکر کا حکم
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
محتصر شرعی مسائل
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
اگر کوئی شخص سفرِ معراج کا انکار کرے، تو اس پر کیا حکمِ شرعی عائد ہو گا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کو بے شمار معجزات عطا فرمائے ، ان میں سے ایک عظیم معجزہ ”سفرِ معراج“ بھی ہے، اس سفر مبارک کی ابتداء یہ مسجدِ حرام سے ہوتی ہے اور انتہاء یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے عین بیداری کے عالم میں سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا، اس واقعے کے ثبوت میں پائے جانے والے دلائل کے اعتبار سے علماء نے اس سفر کے مختلف مدارج بیان فرمائے ہیں اور اس کے اعتبار سے اس کے منکر کا حکم متعین فرمایا ہے۔
اس سفرِ کے تین مدارج اور احکام ہیں:
اسراء: یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک راتوں رات تشریف لے جانا۔
حکم: یہ قرآن کریم کی نص قطعی سے ثابت ہے ، اس پر ایمان فرض و لازم اور جو اس کا انکار کرے ، وہ کافر ہے۔
معراج: یعنی زمین سے آسمان اوران کے اوپر جن بلند مقامات تک اللہ تعالی نے چاہا ، وہاں تشریف لے جانا۔
حکم: یہ احادیثِ مشہورہ سے ثابت ہے، اسے ماننا بھی ضروری ہے اورجو اس کا انکار کرے ، وہ بدعتی و گمراہ ہے ۔
اعراج یا عروج: یعنی مختلف مقامات مثلاًعرش وغیرہ کی سیر فرمانا حتی کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار فرمانا۔
حکم: یہ اخبار احاد (خبر متواتر کے علاوہ احادیث) سے ثابت ہے ، اس کا انکار کرنے والا گنہگار ہے۔
(شرح العقائدالنسفیۃ، مبحث المعراج الخ، ص176، مطبوعہ لاھور) (فتاوی رضویہ، ج28، ص667، رضا فاؤنڈیشن، لاھور) (النبراس شرح شرح العقائد، ص292، مطبوعہ ملتان)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


