مسئلہ فدک اور نسبتِ خطا کے متعلق ایک سنجیدہ اور معتدل تبصرہ

محرر: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

اہلسنت و جماعت ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے مقربین اور برگزیدہ و چنیدہ ہستیوں کے باادب رہے ہیں ، خواہ انبیائے کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ ہوں یا صحابہ کرام و اہلیبیت اطہار علیہم الرضوان کی پاک ذاتیں ہوں ، ان کی عقیدت و محبت ، ادب و احترام ہمیشہ سے اہلسنت کا امتیازی نشان رہا ہے ۔ 🔴 ایک عرصے سے اہلسنت و جماعت کے علماء میں جاگیرِ فدک کے ضمن میں ایک مسئلہ ” نسبۃ الخطاء الی سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا ” زیرِ بحث آیا ، جس پر بحث نے عجیب طول پکڑا اور یہ مسئلہ علمی اختلاف کی راہ سے ہٹ کر ذاتی عناد ، لڑائی جھگڑوں اور بے جا شدت کی بھینٹ چڑھ گیا ، جس کی وجہ سے اہلسنت کو اندرونی طور پر بہت انتشار کا سامنا کرنا پڑا ، پھر  اس مسئلے کی آڑ میں کئی شرپسند عناصر نے خوب فائدہ اٹھایا اور اہلسنت کے شیرازہ بکھیرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ کافی کچھ سوچنے کے بعد ایک تبصرہ رقمطراز کر رہا ہوں تاکہ ہماری عوام کم از کم اس میں الجھ کر اپنا ایمان کمزور/برباد کرنے سے بچیں ۔

🔴🔶مسئلہ فدک میں اہلسنت کا موقف🔶🔴

اہلسنت کے نزدیک مسئلہ فدک کے معاملے میں خلیفہ اول بلافصل ظاہراً و باطناً حضرت  سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صواب تھا اور حضرت سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا نے اپنے بابا جان حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی حدیث شریف سن کر اپنا سوال و مطالبہ ترک فرما دیا اور یوں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید و تاثیق فرمائی ۔ اسی موقف پر تمام امت کا اجماع و اتفاق ہے ۔ ہمارے اکابرین نے اس مسئلے پر اسی انداز سے کلام نقل فرمایا ہے اور اس سے زیادہ  بحث و تمحیص سے منع فرمایا ۔ 🔘 کچھ عرصہ قبل اس مسئلے پر جب بحث چلی ، تو اس مسئلے کی تقریر و تفہیم پر دو موقف اور دو گروہ وجود میں آئے: 1) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا موقف حق و صواب ہے ، لیکن حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا بھی اس معاملے میں خطا سے محفوظ رہیں ۔ 2) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا موقف حق و صواب ہے ، جبکہ سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کا سابقہ موقف خطا (اجتہادی) تھا ، لیکن جب انہوں اپنے موقف سے رجوع کر لیا ، تو وہ خطائے اجتہادی بھی باقی نہ رہی ۔ 🔶 پھر یہ بحث چل پڑی کہ اس ” نسبتِ خطا ” پر کیا حکمِ شرعی عائد ہو گا ؟ اس میں دونوں طبقات کی طرف سے درج ذیل موقف اپنائے گئے: 1) سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی طرف جس پیرائے میں نسبتِ خطا کی گئی ، وہ گستاخی اور گمراہی ہے ۔ 2) یہ نسبت کرنا کسی اعتبار سے گستاخی و گمراہی نہیں بنتی اور جب ایک موقف کو حق و صواب مانا ، تو دوسری جانب خطائے اجتہادی ہونا ایک یقینی اور ضروری امر ہے ۔ 🔶 تبصرہ : حق یہ ہے کہ دونوں گروہوں کو شرعاً و اخلاقاً اصلاح کی حاجت ہے ، اسی حوالے سے چند معروضات پیشِ خدمت ہیں: ⬅️ دراصل محلِ نزاع یہ مسئلہ تھا کہ اس باب میں سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی طرف خطا (اجتہادی) کی نسبت کرنا درست ہے یا نہیں ؟ اور اس پر کیا حکمِ شرعی عائد ہو گا ؟ اس معاملے میں  گفتگو کرتے ہوئے دونوں فریق یا ان کے متبعین خلطِ مبحث کا شکار نظر آتے ہیں ، اصل مسئلے پر بات کرنے کی بجائے غیر ضروری اور غیر متعلقہ ابحاث پر دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ گھنٹوں گھنٹوں ان ابحاث کو سننے والے بھی اصل مسئلہ سمجھنے سے قاصر و غافل نظر آتے ہیں ۔ ⬅️ ہم کامل وثوق سے یہ بات کہتے ہیں کہ اس معاملے میں حضرت سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا کی طرف خطائے اجتہادی کی نسبت کرنا خود ایک خطا و غلطی ہے ، اس لئے کہ اولاً سیدہ کائنات رضی اللہ عنہا نے قرآنِ کریم کے عموم و اطلاق سے یا قیاس سے استدلال فرمایا تھا ، اجتہاد نہیں فرمایا تھا ۔ عموم و اطلاق سے استدلال یا قیاس کو دلیل بنانا اجتہاد کے ساتھ خاص نہیں ، اسی طرح مجتہد کا ہر استدلال اجتہاد نہیں ہوتا ۔ (یہ باتیں قابل توجہ ہیں۔) 🔘 کہنے کا مقصد ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی نہیں ، لہذا جو اس کے اجتہادی ہونے کے قائل ہیں ، انہیں واضح دلائل و نقول سے اس کا اجتہادی ہونا ثابت کرنا چاہئے اور خلطِ مبحث کا شکار نہیں ہونا چاہئے . پھر اگر کسی بزرگ نے اجتہاد کا قول کیا ، تو فقط ایک آدھ نقل اور وہ بھی مؤول ، قابل قبول نہیں ہو سکتی ۔ نیز محض اجتہاد کا قول مل بھی جائے ، تو اس کا محمل دیکھنا ضروری ہے کہ وہاں اجتہاد فی الھجران مراد ہے یا کچھ اور ؟؟؟ نیز مبحوث عنہا مسئلہ میں اجتہاد کا قول بھی ہو ، تو اس سے ” وقوعِ خطا ” کا موقف قطعاً ثابت نہیں ہو سکتا ۔ اور پھر ایک آدھ نقل کو راجح و مذہب بنا کر پیش کرنا درست نہیں ۔ 🔶 اس مسئلے کو بیان کرتے ہوئے اکابرین نے ایسی کوئی نسبت نہیں کی ( اگر کسی اہل علم کی نظر میں خطا کی نسبت منقول ہونا ثابت ہو ، تو پیش کرنی چاہئے ، کم از کم ہم اپنی تحقیق کے مطابق کہہ سکتے ہیں کہ چودہ سو سال میں ایسی نسبت کہیں ثابت و منقول نہیں) ۔ 🔶 یہ کہنا کہ ایک موقف حق و صواب ہے ، تو یقیناً ضروری طور پر دوسرا موقف خطا ہو گا ، تو سوال یہ ہے کہ اولاً ایسا کوئی اصول کتب میں موجود نہیں اور ثانیاً اگر بقول مدعی ایسا کوئی اصول ثابت ہے ، تو بحوالہ پیش کریں اور پھر اکابرین اس اصول سے واقف تھے یا نہیں ؟ واقف نہیں تھے ، ایسا دعوی بلادلیل ہو گا اور واقف تھے ، تو چودہ سو سالہ تاریخ میں اکابرین میں سے کسی نے بھی اس معاملے میں ایک جانب خطا کی صراحت کرنے کی جراءت کیوں نہ کی … ؟؟؟ ⬅️ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شرعی حکم کی تعیین میں جذبات و شدت سے کام لینے کی بجائے دلائلِ شرعیہ کی بنیاد پر کوئی حکم صادر کیا جاتا ہے ، اگر کوئی مفتی یا محقق دلائلِ شرعیہ کے بغیر محض ذاتی غصہ نکالتے ہوئے کوئی جذباتی فتوی صادر کرے ، تو اس کا فتوی شرعی حکم نہیں کہلائے گا اور نہ ہی قابلِ اعتبار ہو گا ۔ 🔶 اس مسئلے میں اگر کسی سنی عالم سے نسبتِ خطا کے الفاظ واقع ہو گئے ، تو انہیں چاہئے کہ اس معاملے میں اہلسنت کے عظیم تر مفادات کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ سے رجوع کر لیں اور چودہ سو سالہ اکابرین کی روش کو اپناتے ہوئے ہی اس مسئلے کو بیان کریں ، اکابرین کے طریقے میں ہی برکات ہیں ۔ 🔶 لیکن یاد رہے کہ خطائے اجتہادی کی نسبت کرنے کی وجہ سے کسی پر گستاخی یا اہلسنت سے خروج کا حکم دینا انتہاء درجے کی جسارت ہے ، جس سے اجتناب ضروری ہے . اردو کے لفظِ خطا (کہ جو بدکاری وغیرہ کے مفہوم میں آتا ہے ، اس میں) اور مبحوث عنہا مسئلہ میں واقع لفظِ خطا میں دور دور کا کوئی واسطہ نہیں اور اسے بنیاد بنا کر گستاخی کا حکم لگانا  قیاس مع الفارق اور بالکل غلط استدلال ہے ۔ 🔶 ابھی تک کسی بھی معتبر و مستند ادارے یا مفتی صاحب کی طرف سے اس نسبت پر گستاخی اور اہلسنت سے خروج کا حکم جاری نہیں کیا گیا ، لہذا اس معاملے میں محض خطباء اور اسٹیج کے مفتیوں کی باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے ۔

🛑 عوام و خواص کے لئے ضروری باتیں 🛑

اگر عوام و خواص مندرج ذیل باتوں پر عمل کریں ، تو موجودہ زمانے میں بہت سے فتنوں کا سدِ باب ہو سکتا ہے ۔ 🔶 معظمات دینی شخصیات ادب و احترام اور محبت کے لئے ہیں ، اس لئے نہیں کہ عوام میں ان شخصیات پر تحقیق کے نام پر ابحاث کی جائیں  ، ہم اہلسنت ہیں ، ہمیں اپنے بزرگوں کی طرح راہِ ادب کو اختیار کرنا چاہئے ۔ 🔶 ایسے مسائل جو علماء کے ساتھ خاص ہیں ، عوام ان کی وجہ سے فتنہ میں پڑ سکتی ہے ، ان مسائل کو عوام میں لانے سے اجتناب کرنا چاہئے ۔ علماء کو چاہئے کہ ایسے مسائل سوشل میڈیا پر عوام کی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے بند کمروں میں اکابر علماء اور بزرگوں کے سامنے پیش کر کے حل کروائیں ۔ 🔶 اہلِ علم  کے مابین اختلافِ رائے ہو جانا ایک فطری امر ہے ، لیکن حکمت و تدبر ، صبر و تحمل ، عزت و احترام اور اخلاقیات کا دامن نہیں چھورنا چاہئے ۔ 🔶 عوام میں ان کو پیش آنے والے ضروری مسائل ہی بیان کرنے چاہئیں۔ 🔶 عوام کو چاہئے کہ علمائے اہلسنت کے آپسی اختلاف میں نہ پڑیں۔ 🔶 جب تک کسی جانب بدعقیدگی واضح نہ ہو ، کسی عالم دین کی بے ادبی نہ کریں۔ 🔶 عوام کو چاہئے کہ اپنے ضروری امور کی طرف توجہ دیں اور علمائے اہلسنت کے آپسی اختلافات میں سوشل میڈیا وغیرہ کسی جگہ حصہ شامل نہ کریں ۔ 🛑 فتنوں کا دور دورہ ہے ، ایک فتنے کے بعد دوسرا فتنہ اپنا منہ کھولے کھڑا دکھائی دیتا ہے ، ادب و احترام گھٹتا جا رہا ہے ، ایسے پُرفتن دور میں ایمان کی حفاظت ایک مشکل امر بنتا جا رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ (آمین)