تيرا (13) رجب المرجب ذکرِ علی المرتضی رضی اللہ عنہ کرنا کیسا؟

محرر: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

13 رجب المرجب خلیفہ چہارم امیر المؤمنین  حضرت سیدنا مولائے کائنات مولا علی المرتضیٰ شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی یومِ ولادت ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قسم کی آراء ہیں ۔

(1) ایک رائے تو یہ ہے کہ مولا علی رضی اللہ عنہ کی یومِ ولادت 13 رجب المرجب نہیں ہے ۔ اس رائے کے حامل افراد کی دلیل یہ ہے کہ اہلسنت کے کسی معتمد و مستند ماخذ میں صحیح سند کے ساتھ 13 رجب کو ولادتِ مولا علی رضی اللہ عنہ کا ثبوت نہیں ملتا ۔

(2) کئی معتبر اکابر علمائے اہلسنت نے 13 رجب کو مولا علی رضی اللہ عنہ کی یومِ ولادت کے طور پر نقل فرمایا ہے ۔ یہ رائے اختیار کرنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ جب ہمارے کئی علمائے اہلسنت نے 13 رجب والے قول پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر انکار و رد اسے نقل کیا ہے ، تو ان بزرگوں پر اعتماد کرتے ہوئے یہ کہنا کہ 13 رجب مولا علی رضی اللہ عنہ کا یومِ ولادت ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

⭕یاد رہے کہ یہ محض ایک تاریخی مسئلہ ہے ، ایسے کسی اختلاف کی وجہ سے مولا علی شیرِ خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے ذکر سے روکنا یا اس پر اعتراض کرنا قطعاً باطل و مردود ہے ، جس طرح مولا علی رضی اللہ عنہ کا ذکرِ پاک پورا سال کیا جا سکتا ہے ، اسی طرح 13 رجب المرجب کو بھی کیا جا سکتا ہے ، لہٰذا کوئی صحیح العقیدہ سنی مسلمان اگر اکابر علمائے اہلسنت سے استناد کرتے ہوئے 13 رجب المرجب کو مولا علی رضی اللہ عنہ کا یومِ ولادت قرار دے اور روافض کے طریقے سے بچتے ہوئے خالصتا اہلسنت کے مزاج کے مطابق ذکرِ مولا علی رضی اللہ عنہ کا اہتمام کرے ، تو شرعاً اس میں کسی قسم کے حرج کی بات نہیں ہے ۔

⭕اور یہ بھی یاد رہے کہ 13 رجب مولا علی رضی اللہ عنہ کا یوم منانے کو روافض کا طریقہ قرار دے کر اور ان کے ساتھ تشبہ کہہ کر بھی ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا ، کیونکہ روافض وغیرہ بدمذہبوں کے ساتھ  تشبہ وہی ممنوع ہے ، جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یا وہ کام بدمذہبوں کا شعارخاص ہو کہ جو وہ کام کرے ، تو اسے بدمذہب ہی سمجھا جائے یا فی نفسہ اس کام میں شرعاً کوئی حرج و خرابی ہو ، ان صورتوں کے بغیر شرعی طور پر حکمِ  ممانعت نہیں ہو سکتا ۔

⭕🛑 چند گزارشات و تنبیہات : 🛑⭕

ہمارے ہاں ایسے مسائل پر بھی اکثر طور پر شدت اپنائی جاتی ہے ، لہٰذا اس حوالے سے چند گزارشات و  تنبیہات (نصیحتیں) پیشِ خدمت ہیں ، جن کا لحاظ رکھا جائے ، تو ان شاء اللہ عزوجل راہِ اعتدال نصیب رہے گی ۔

(۱) 13 رجب یومِ ولادت ہے یا نہیں ؟ یہ محض تاریخی مسئلہ ہے ، ایسے معاملات پر سنی ہونے / نہ ہونے کا مدار نہیں رکھا جا سکتا کہ اہلسنت کے اصول مقرر ہیں ، جن کی مخالفت پر سنیت کا مدار ہے ، محض تاریخی مسائل میں اس قدر شدت اپنانا اور اس پر سنی ہونے / نہ ہونے کی بنیاد رکھنے کی روش دلائلِ شرعیہ  کے مطابق و موافق نہیں ، لہٰذا اس سے عوام و خواص کو اجتناب کرنا چاہئے ۔

(۳) اہل عرب کے ہاں تواریخِ ولادت و وصال کے ضبط (محفوظ رکھنے) کا التزام نہیں ہوتا تھا ، اسی وجہ سے اکثر طور پر ایسے معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے ، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی یومِ ولادت میں محققین کی آراء مختلف ہیں ، ایسے مواقع پر بغیر روایت و سند شہرت وغیرہ پر بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے جیسا کہ  امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نے مختلف اقوال کو نقل کرنے کے بعد اپنی تحقیق رقم فرمائی اور کسی حوالے و سند سے استدلال و استناد کے بغیر فقط شہرت عند الجمہور اور تعاملِ مسلمین کی بنیاد پر 12 ربیع الاول یومِ ولادتِ پاک منانے کا حکم ارشاد فرمایا ۔

(۴) آجکل اکثر افراد ہر بات پر سندِ محدثانہ کا مطالبہ کرتے ہیں ، جبکہ یاد رہے کہ ایسے تاریخی معاملات میں ہر جگہ سندِ محدثانہ کی ضرورت نہیں ہوتی ، بلکہ بسااوقات ایسے امور میں تو سرے سے سند کی بھی حاجت نہیں ہوتی ، لہٰذا ہر جگہ محض سند اور اس کی صحتِ محدثانہ کا تقاضا و مطالبہ بھی درست نہیں ہوتا ۔

(۵) عقیدے کے علاوہ کسی مسئلے یا تحقیق میں   اگر کسی سنی صحیح العقیدہ عالمِ دین کی تحقیق آپ کی تحقیق سے مختلف ہو جائے ، تو اسے محض علمی اختلاف سمجھنا چاہئے ، اس سے تجاوز کرنا ، حد سے تجاوز کرنے کے زمرے میں داخل ہے ، جس کی شرعاً و اخلاقاً اجازت نہیں ہے . ہاں ! اگر اختلاف کرنے والا بدعقیدہ (شیعہ رافضی وغیرہ) ہو ، تو اس کے ساتھ کبھی عام سے مسئلے میں بھی شدت ہونا جدا معاملہ ہے کہ اس کے ساتھ شدت اس کی بدعقیدگی کی وجہ سے ہو گی ۔

(۶) ایسے مسائل پر اپنی تمام تر قوتوں کو صرف کرنے کی بجائے محققینِ اہلسنت کو چاہئے کہ اپنی صلاحیتوں کو مدارس و جامعات ، تصنیف و تالیف ، ردِ  الحاد و ردِ بدمذہباں و غیرہ ضروری امور کی طرف متوجہ کریں اور سنجیدگی سے اس پر کام کریں تاکہ ہماری نسلیں صحیح عقائد و نظریات کی حامل ہوں اور ہمیں مختلف شعبہ جات میں عظیم محققین میسر آئیں ، جو اشاعت و ترویجِ اہلسنت میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں ۔

🤲 اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ اعتدال اہلسنت و جماعت (مسلکِ اعلیٰحضرت) کی تعلیمات پراستقامت اور اس کی ترویج و اشاعت ، تعمیر و ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے . (آمین ثم آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و الہ و سلم)