نمازِ عشاء بغیر جماعت پڑھی ، تو وتر جماعت کے ساتھ پڑھنا ؟

نمازِ عشاء بغیر جماعت پڑھی ، تو وتر کی جماعت کا حکم

ریفرینس نمبر: 76

تاریخ اجراء:14ذوالقعدۃ الحرام 1445 ھ بمطابق 23 مئی 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

اگر رمضان المبارک میں کسی کی نمازِ عشاء جماعت سے رہ گئی اور اُس نے بغیر جماعت عشاء کے فرض پڑھے ، تو کیا وہ وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکتا ہے ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

رمضان المبارک میں اگر کسی نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہیں کی ، تو بہتر یہ ہے کہ وتر کی نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ، بلکہ وتربھی تنہا پڑھے  ، اس وجہ سے کہ وتر کی جماعت ، جماعتِ عشاء کے تابع ہے ، تو جب عشاء کی نماز جماعت سے رہ گئی ، تو وتر بھی جماعت سے نہیں پڑھے جائیں گے ، البتہ اگر کسی نے اس صورت میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھ لئے ، تو بھی  اُس کے وتر ہو جائیں گے ، گناہ یا اعادے (وتر کی نماز دوبارہ پڑھنے ) کا حکم نہیں ہو گا ، کیونکہ اس صورت میں وترجماعت  کے ساتھ پڑھنا مکروہِ  تحریمی نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ مکروہِ تنزیہی ہے .

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “اذا لم یصل الفرض معہ لایتبعہ فی الوتر” ترجمہ : جب کسی شخص نے عشاء کے فرض جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ، تو وتر کی جماعت میں امام کی اقتداء نہیں کرے گا ۔   (رد المحتار، ج 2، ص 603، مکتبہ حقانیہ، پشاور)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں : ” جس نے فرض تنہا پڑھے ہوں ، وہ وتر بھی تنہا پڑھے۔   (فتاوی رضویہ، ج 7، ص469، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس مسئلے کی علت پر تفصیلی کلام کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں : ” ان جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ الفرض فی حق کل احد من المصلین ” (ترجمہ : بے شک وتر کی جماعت ، تمام نمازیوں کے حق میں فرض (عشاء) کی جماعت کے تابع ہے ۔)    (فتاوی رضویہ، ج 7، ص 566، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

احکامِ شریعت میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں : ” وتر ہو جانے میں شبہ نہیں ۔ ہاں ! مکروہ ہے ۔۔۔۔  اور کراہت تحریمی کی کوئی وجہ نہیں ، ظاہراً کراہت تنزیہ ہے۔“    (احکامِ شریعت ، حصہ 3 ، ص 280 ، ممتاز اکیڈمی، اردو بازار، لاھور)

رمضان المبارک میں اگر کسی نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا نہیں کی ، تو بہتر یہ ہے کہ وتر کی نماز جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ، بلکہ وتربھی تنہا پڑھے  ، اس وجہ سے کہ وتر کی جماعت ، جماعتِ عشاء کے تابع ہے ، تو جب عشاء کی نماز جماعت سے رہ گئی ، تو وتر بھی جماعت سے نہیں پڑھے جائیں گے ، البتہ اگر کسی نے اس صورت میں وتر جماعت کے ساتھ پڑھ لئے ، تو بھی  اُس کے وتر ہو جائیں گے ، گناہ یا اعادے (وتر کی نماز دوبارہ پڑھنے ) کا حکم نہیں ہو گا ، کیونکہ اس صورت میں وترجماعت  کے ساتھ پڑھنا مکروہِ  تحریمی نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ مکروہِ تنزیہی ہے .

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : “ اذا لم یصل الفرض معہ لایتبعہ فی الوتر” ترجمہ : جب کسی شخص نے عشاء کے فرض جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ، تو وتر کی جماعت میں امام کی اقتداء نہیں کرے گا ۔   (رد المحتار ، ج 2 ، ص 603 ، مکتبہ حقانیہ ، پشاور)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں : ” جس نے فرض تنہا پڑھے ہوں ، وہ وتر بھی تنہا پڑھے۔                                                                                                              (فتاوی رضویہ ، ج 7 ، ص469 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس مسئلے کی علت پر تفصیلی کلام کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں : ” ان جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ الفرض فی حق کل احد من المصلین ” (ترجمہ : بے شک وتر کی جماعت ، تمام نمازیوں کے حق میں فرض (عشاء) کی جماعت کے تابع ہے ۔)    (فتاوی رضویہ ، ج 7 ، ص 566 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

احکامِ شریعت میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ اس بارے میں فرماتے ہیں : ” وتر ہو جانے میں شبہ نہیں . ہاں ! مکروہ ہے …. اور کراہت تحریمی کی کوئی وجہ نہیں ، ظاہراً کراہت تنزیہ ہے۔“    (احکامِ شریعت ، حصہ 3 ، ص 280 ، ممتاز اکیڈمی ، اردو بازار ، لاھور)

 

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم