مشروم / کھمبی کھانے کا حکم ؟

مشروم / کھمبی کھانے کا حکم

تاریخ اجراء:13 جمادی الاولیٰ 1445ھ بمطابق 16 نومبر 2024ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

محتصر شرعی مسائل

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

مشروم / کھمبی (ایک قسم کی سفید رنگ کی نبات جو چھتری نُما ہوتی ہے اور برسات کے موسم میں خود بخود اگ آتی ہے ، اُسے) کھانا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

مشروم/کھمبی نباتات یعنی زمین سےاُگنے والی اشیاء میں سے ہے اور نباتات (زمین سے اگنے والے پودوں، پھلوں اورجڑی بوٹیوں) کے حوالے سے شرعی اصول یہ ہے کہ تمام نباتات حلال ہیں، جبکہ ضرر رساں (نقصان دہ) نہ ہوں اور نشہ آور ہوں۔ مشروم/کھمبی  نہ تو ضرر رساں ہےاورنہ ہی نشہ آورہے، لہٰذا دیگر حلال نباتات کی طرح اس کاکھانا بھی حلال ہے۔

مختلف نباتات و ثمرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى ()  كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ ؕاِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى ﴾ ترجمہ : توہم نےاس سےطرح طرح کے سبزےکے جوڑے  نکالے، تم  کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ۔   (پارہ16،سورۃ طہ،آیت53)

اپنے آپ کوضرر پہنچانا اور ہلاکت پرپیش کرنا، جائز نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔   (پارہ2،سورۃالبقرۃ،آیت195)

ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کل مسکر حرام‘‘ ترجمہ: ہرنشہ آور چیز حرام ہے۔                                                                                                  (مسندامام احمد بن حنبل،ج4،ص280،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ’’تتن‘‘ نامی ایک بوٹی کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’(الاصل الاباحۃ او التوقف) المختار الاول عند الجمھور من الحنفیۃ  و الشافعیۃ (فیفھم منہ حکم النبات۔۔) و ھو الاباحۃ علی المختار او التوقف و فیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ‘‘ ترجمہ: ’’اشیاء میں اصل اباحت ہے یا توقف؟‘‘ حنفیہ اور شافعیہ میں سے جمہور علماء کا مختار مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے۔۔’’پس اس قاعدے سے تتن نامی بوٹی کا حکم بھی سمجھا جاسکتا ہے‘‘ اور وہ مختار مذہب کے مطابق اس کا مباح ہونا ہے یا پھر (غیر مختار قول کے مطابق) توقف ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اُس بوٹی کا نشہ آور ہونا یا ضرر رساں ہونا تسلیم نہ کیا جائے، تب یہ حکم ہے (ورنہ اگر نشہ آور ہو یا ضرر رساں ہو، تو اُسے کھانا، جائز نہیں ہوگا)۔    (ردالمحتار،ج10،ص51،مکتبہ حقانیہ،پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

ادارہ : جامعہ عطر العلوم (اسلام آباد)

سلسلہ : مختصر شرعی مسائل

عنوان : مشروم / کھمبی کھانے کا حکم ؟

سوال : مشروم / کھمبی (ایک قسم کی سفید رنگ کی نبات جو چھتری نُما ہوتی ہے اور برسات کے موسم میں خود بخود اگ آتی ہے ، اُسے) کھانا کیسا ہے ؟

جواب : مشروم / کھمبی نباتات یعنی زمین سے اُگنے والی اشیاء میں سے ہے اور نباتات (زمین سے اگنے والے پودوں ، پھلوں اور جڑی بوٹیوں) کے حوالے سے شرعی اصول یہ ہے کہ تمام نباتات حلال ہیں ، جبکہ ضرر رساں (نقصان دہ) نہ ہوں اور نہ ہی نشہ آور ہوں . مشروم / کھمبی نہ تو ضرررساں ہے اور نہ ہی نشہ آور ہے ، لہٰذا دیگر حلال نباتات کی طرح اس کا کھانا بھی جائز و حلال ہے۔

﴾ فَاَخْرَجْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰى o كُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَكُمْ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّهٰى ﴿

ترجمہ : تو ہم نے اس سے مختلف قسم کی نباتات کے جوڑے نکالے ، تو تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ ، بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

(پارہ16،سورۃ طہ،آیت53)

اپنے آپ کو ضرر پہنچانا اور ہلاکت پر پیش کرنا ، جائز نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

﴾ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكم اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴿

ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

(پارہ2،سورۃالبقرۃ،آیت195)

ہر نشہ آور چیز حرام ہے . چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا : “کل مسکر حرام”  ترجمہ : ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔

(مسند احمد ، ج 4 ، ص 280 ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ” تتن ” نامی ایک بوٹی کے بارے میں کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” (الاصل الاباحۃ او التوقف) المختارالاول عندالجمھور من الحنفیۃ و الشافعیۃ …. (فیفھم منہ حکم النبات ….) و ھو الاباحۃ علی المختار او التوقف و فیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ و تفتیرہ و اضرارہ ” ترجمہ : اشیاء میں اصل اباحت ہے یا توقف ؟ حنفیہ اور شافعیہ میں سے جمہور علماء کا مختار مذہب یہ ہے کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے …. پس اس قاعدے سے تتن نامی بوٹی کا حکم بھی سمجھا جا سکتا ہے اور وہ مختار مذہب کے مطابق اس کا مباح ہونا ہے یا پھر (غیر مختار قول کے مطابق) توقف ہے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اُس بوٹی کا نشہ آور ہونا یا ضرر رساں ہونا تسلیم نہ کیا جائے ، تب یہ حکم ہے (ورنہ اگر نشہ آور ہو یا ضرر رساں ہو ، تو اُسے کھانا ، جائز نہیں ہو گا) .

(ردالمحتار ، ج 10 ، ص 51 ، مکتبہ حقانیہ ، پشاور)

واللہ تعالیٰ اعلیٰ و اعلم بالصواب

✍ ابو ثوبان محمد خاقان قادری عفی عنہ

جمادی الاولیٰ 1446 ھ بمطابق 16 نومبر 2024ء