سنت اعتکاف ٹوٹ جائے ، تو قضا کا حکم
ریفرینس نمبر: 88
تاریخ اجراء:14رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 15 مارچ 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
اگر کسی کا رمضان المبارک کے آخری عشرے کا سنت اعتکاف فاسد ہو جائے ، تو اُس پر کتنے دنوں کی قضا لازم ہو گی ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف فاسد ہو جائے، تو پورے دس دنوں کی قضا واجب نہیں ہوتی ، بلکہ صرف اُس ایک دن کی قضا واجب ہوتی ہے ، جس دن کا اعتکاف ٹوٹا ، اس وجہ وجہ سے کہ اس سنت اعتکاف کی مثال چار رکعات نوافل کی طرح ہے ، جس طرح چار رکعات نوافل کا ہر شفع (ہر دو رکعت) علیٰحدہ نماز ہے ، جس شفعے کو توڑے گا ، صرف اُسی کی قضا لازم ہو گی ، مکمل چار رکعات کی قضا لازم نہیں ہو گی ، اسی طرح اعتکاف کا ہر دن علیٰحدہ حکم رکھتا ہے ، لہٰذا اگر کسی دن کا اعتکاف ٹوٹ گیا ، تو صرف اُسی دن کی قضا لازم ہو گی۔
اعتکاف کی قضا کا طریقہ یہ ہو گا کہ رمضان میں یا رمضان کے علاوہ کسی دن غروب آفتاب کے وقت ، بلکہ احتیاط یہ ہے کہ غروب سے چند منٹ پہلے قضاء اعتکاف کی نیت سے مسجِد میں (عورت ہو ، تو مسجدِ بیت میں) داخل کر ٹھہر جائے اور اگلے دن کے غروبِ آفتاب تک مسجد میں رہے نیز اس میں روزہ بھی شرط ہے ، لہٰذا اس دن کا روزہ بھی رکھنا ہو گا اور اگلے دن کے غروب کے بعد اعتکاف سے اٹھ جائے۔
رد المحتار میں ہے: “ قلت : قدمنا ما يفيد اشتراط الصوم فيها بناء على أنها مقدرة بالعشر الأخير و مفاد التقدير أيضا اللزوم بالشروع ” ترجمہ : میں (علامہ شامی علیہ الرحمۃ) کہتا ہوں : پیچھے ہم نے وہ بحث ذکر کی ہے ، جو اس بات کا فائدہ دیتی ہے کہ سنتِ موکدہ اعتکاف میں روزہ شرط ہے ، اس بنا پر کہ وہ آخری عشرے کے ساتھ مقدر ہے اور تقدیر کا مفاد یہ بھی ہے کہ شروع کرنے سے لازم ہو جائے گا ۔ (رد المحتار، ج 02، ص 444، دار الفکر، بیروت)
ردالمحتار میں ہے : ” یظهر من بحث ابن الهمام لزوم الاعتكاف المسنون بالشروع و إن لزوم قضاء جميعه أو باقيه مخرج على قول أبی يوسف أما على قول غيره فيقضی اليوم الذی أفسده لاستقلال كل يوم بنفسہ …. و الحاصل أن الوجہ يقتضی لزوم كل يوم شرع فيہ عندهما بناء على لزوم صومہ بخلاف الباقی لأن كل يوم بمنزلۃ شفع من النافلۃ الرباعيۃ و إن كان المسنون هو اعتكاف العشر تمامہ ” ترجمہ : علامہ بن ہمام علیہ الرحمۃ کی بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سنت اعتکاف شروع کرنے سے لازم ہو جاتا ہے اور یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف ٹوٹنے کی صورت میں تمام دنوں یا باقی دنوں کی قضا کا لازم ہونا امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ کے قول پر مبنی ہے اور ان کے علاوہ ائمہ کا قول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ صرف اُسی دن کی قضاء لازم ہو ، جس دن اعتکاف توڑا ، کیونکہ اعتکاف میں ہر دن فی نفسہ مستقل ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور حاصل یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد رحمھما اللہ تعالیٰ کے نزدیک دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر وہ دن جس میں اعتکاف شروع کیا ، اُس دن کے اعتکاف کی قضا لازم ہو ، کیونکہ اعتکاف میں ہر دن ، چار رکعات نفل کے شفع کے قائم مقام ہے ، اگرچہ سنت ، پورے دس دنوں کا اعتکاف ہے۔ (رد المحتار، ج02، ص444 تا 445، دارالفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


