آدمی ایک جگہ اور مالِ زکوٰۃ کسی اور جگہ ہو ، زکوٰۃ کی ادائیگی میں کس جگہ کے ریٹ کا اعتبار ہو گا ؟

آدمی خود ایک جگہ اور مالِ زکوٰۃ کسی دوسری جگہ ہو، تو کس جگہ کے ریٹ کا اعتبار ہو گا؟

ریفرینس نمبر: 92

تاریخ اجراء:16رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 17 مارچ 2025 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

ایک شخص بیرونِ ملک میں رہائش پذیر ہو ، لیکن اُس کا گولڈ وغیرہ مالِ زکوٰۃ پاکستان میں موجود ہو ، تو وہ زکوٰۃ کی ادائیگی میں پاکستان کے ریٹ کا اعتبار کرے گا یا وہ جس ملک میں موجود ہے ، اُس کا اعتبار کرے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 پوچھی گئی صورت میں وہ شخص زکوٰۃ کی ادائیگی میں پاکستان کے ریٹ کا اعتبار کرے گا، اس وجہ سے کہ  زکوٰۃ کے معاملے میں ریٹ وغیرہ کا تعین کرنے میں اس جگہ کا اعتبار ہوتا ہے، جہاں مال موجود ہو، اگرچہ زکوٰۃ دینے والا خود کہیں اور موجود ہو ۔

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”المعتبر فی الزکاۃ مکان المال  فی الروایات کلھا“ ترجمہ :تمام روایات کے مطابق زکوٰۃ میں مال کی جگہ کا اعتبار ہو گا۔    (العقود الدریۃ في تنقيح الفتاوى الحامدية، ج1، ص9، دار المعرفۃ، بیروت)

 فتاوی فیض الرسول میں سوال ہوا: ”زید بمبئی میں ہے اوراس کے بچے وطن میں ہیں، تو ان کے صدقہ فطر کے گیہوں کی قیمت وطن کے بھاؤ سے اداکرے یابمبئی کے بھاؤسے ؟اورزیورات جن کا وہ مالک ہے وہ وطن میں ہیں تو زکوۃ کی ادائیگی میں کہاں کا اعتبار ہے؟“  اس کے جواب  میں فرمایا: ”بچے اورزیورات جب کہ وطن میں ہیں، توصدقہ فطرکے گیہوں میں بمبئی کی قیمت کا اعتبار کرنا ہوگا اورزیورات میں وطن کی قیمت کا، لانہ یعتبر فی صدقۃ الفطر مکان المودی و فی الزکوۃ مکان المال، ھکذا قال صاحب الھدایۃ فی کتاب الاضحیۃ“۔ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 511، شبیربرادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم