تین دنوں سے کم مدت میں ختمِ قرآن کرنے کا حکم ؟

تین دنوں سے کم مدت میں ختمِ قرآن کرنے کا حکم

ریفرینس نمبر: 95

تاریخ اجراء:20 رمضان المبارک 1446ھ بمطابق 21 مارچ 2025ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

عمومی حکم کے مطابق تین دنوں سے کم ایام میں قرآنِ کریم ختم کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 عوام (عام لوگوں )کے لیے حدیثِ پاک میں  ختمِ قرآن کے سلسلے میں تین دن تین راتیں مقرر کی   گئی ہیں کہ کم از کم تین  دنوں  میں قرآنِ پاک ختم کیا جائے،اسی لیے فقہائے کرام نے تین دن  سے کم  مدت میں قرآنِ کریم ختم کرنے کو  مکروہ و خلافِ اولیٰ قرار دیاہے اور اگر کوئی جلدی  ختم کرنے کے چکر میں قرآنِ کریم کے حروف چبا جائے یا قریب الصوت  اور قریب المخرج حروف (جن حروف کی آوزیں ایک جیسی ہوتی ہیں، اُن)میں فرق و امتیازنہ کرے جیسے ث ،س اور ص  میں، ز، ذ اور ظ  وغیرہ میں فرق نہ کرے یا  تجویدوقراءت  کے لوازمات مثلاً مدِّ لازم وغیرہ کو چھوڑ دے  یا اتنا تیز پڑھے کہ صرف ”یعلمون“ اور ” تعلمون“ ہی سمجھ آرہا ہو، تو اس  اندازسے قرآنِ پاک پڑھنا شرعاً ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا بمقتضائےحدیث (حدیث پاک کے حکم کے مطابق ) عوام کو چاہیے کہ کم از کم تین دنوں  میں ختم ِقرآن کریں۔

نوٹ : عوام چونکہ اتنا جلدی ختمِ قرآن کرے، تو قواعد ِ تجوید وغیرہ کی رعایت نہیں رکھتی ، لہٰذا ان کے لیے یہ حکم ہے،خواص کے لیے یہ حکم نہیں،  متعددصحابہ کرام  اور اولیائے عظام علیہم الرحمۃ و الرضوان سے  ایک رات یا  اس سے بھی کم  وقت میں مکمل قرآنِ  کریم ختم فرمانا ثابت ہے،

عوام کے حق میں قرآنِ کریم  ختم کرنے کے لیے کم از کم تین دن  مقرر فرمائے گئے ہیں۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لم یفقہ من قرأ القرآن فی اقل من ثلاث“ ترجمہ:جس نے تین  دنوں سے کم میں قرآنِ پاک ختم کیا،اُس نے قرآن سمجھ کر نہیں پڑھا۔   (جامع ترمذی،ج2،ص123،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس حدیثِ  پاک کے تحت فرماتے ہیں:”ظاھرہ المنع من ختمہ فی اقل من ھذہ المدۃ ولکنھم قالوا:قداختلفت عادات السلف فی مدۃ الختم من ختمۃ فی شھرین الی ثمانی ختمات فی کل یوم ولیلۃ والحق ان ذلک یختلف باختلاف الاشخاص“ ترجمہ:اس حدیث پاک کا ظاہر اس بات پردلیل ہےکہ (عام شخص کے لئے) تین  دنوں  سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنا منع ہے اور علمائے کرام فرماتے ہیں:اسلاف کی عادت اس بارے میں مختلف رہی  ہےکہ کوئی تومکمل قرآنِ پاک دو ماہ میں ختم کرتا اور بعض حضرات ایک دن رات میں آٹھ آٹھ دفعہ  مکمل قرآنِ مجید ختم فرما لیتے تھے۔۔اور درست یہ ہے کہ اس میں لوگوں کے مختلف ہونے سے مدت مختلف ہو سکتی ہے۔   (لمعات التنقیح،ج4،ص595،مکتبہ علوم اسلامیہ،لاھور)

فتاوی عالمگیری میں ہے:”یکرہ ان یختم القرآن فی یوم واحد و لایختم فی اقل من ثلاثۃ ایام تعظیما لہ“ ترجمہ:ایک دن میں قرآنِ پاک ختم کرنا مکروہ (تنزیہی) ہے اور قرآن پاک کی عظمت کےپیشِ نظرتین دن سے کم دنوں میں قرآنِ پاک ختم نہ کیا جائے۔   (فتاوی عالمگیری، ج5، ص 317، دار الفکر، بیروت)

علامہ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”لا یستحب ان یختم فی اقل من ثلٰثۃ ایام“  ترجمہ:تین دنوں سے کم مدت میں قرآنِ پاک ختم کرنا بہتر نہیں ہے۔                                  (غنیۃ المتملی، ص496، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

فتاوی امجدیہ میں ہے:”ایک رات میں پورا قرآن پڑھنا خواص کے لیے تھا، عوام کے لیے یہ حکم ہے کہ کم از کم تین رات میں ختم کرنا چاہیے حدیث میں ارشاد ہوا ”لم یفقہ من قرأ القرٓن فی اقل من ثلث“۔اس زمانے کی حالت  کو دیکھتے ہوئے بمقتضائے حدیث کم ازکم تین راتوں میں ختم کرنا مناسب ہے۔“                                                                                                      (فتاوی امجدیہ،ج1،ص240،مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم