روزے دار کے منہ کے اندر دھواں یا گرد و غبار جانے کا حکم
ریفرینس نمبر: 93
تاریخ اجراء:19رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 20 مارچ 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
دورانِ سفر سڑک پہ چلنے والی گاڑیوں کا دھواں/راستے کا گرد و غبار خود بخود روزہ دار کے منہ سے اندر چلا جائے ، تو اُس کا روزہ ٹوٹے گا یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر دھواں یاگرد وغباروغیرہ خود بخود منہ میں داخل ہو جائے، توچونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں، لہٰذا اُس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہاں ! اگر کوئی جان بوجھ اُسے سانس کے ساتھ کھینچے اور وہ حلق یا دماغ میں چلا جائے، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ اُسے اپنا رازہ دار ہونا یاد ہو
مجمع الانہر میں ہے : ”(وإن دخل في حلقه غبار أو دخان أو ذباب) وهو ذاكر لصومه (لا يفطر) والقياس أن يفطر لوصول المفطر إلى جوفه وإن كان لا يتغذى به وجه الاستحسان أنه لا يقدر على الامتناع عنه فإنه إذا أطبق الفم لا يستطاع الاحتراز عن الدخول من الأنف فصار كبلل تبقى في فيه بعد المضمضة وعلى هذا لو أدخل حلقه فسد صومه حتى إن من تبخر ببخور فاستشم دخانه فأدخله حلقه ذاكرا لصومه أفطر؛ لأنهم فرقوا بين الدخول والإدخال في مواضع عديدة، لأن الإدخال عمله والتحرز ممكن“ ترجمہ: اور اگر حلق میں غبار ،دھواں یا مکھی چلی گئی اور اسے روزہ دار ہونا یاد ہو، تو بھی اس کا روزہ نہیں ٹوٹےگا ۔قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا، اگرچہ اس سے غذائیت حاصل نہیں ہوتی ،روزہ توڑنے والی چیز کے پیٹ میں پہنچنے کی وجہ سے۔اور استحسان یعنی روزہ نہ ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کو حلق میں داخل ہونے سے روکنے پر قادر نہیں ہے کہ جب وہ منہ بند کرےگا تو غبار اور دھوئیں وغیرہ کو ناک سے داخل ہونے سے نہیں روک سکے گا،تو یہ چیزیں کلی کرنے کے بعد منہ میں رہ جانے والی تری کی مانند ہیں ۔اور اس پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر وہ ان چیزوں کو خود منہ میں داخل کرے گا ، تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ،حتی کہ اگر کوئی لوبان سلگائے اورروزہ یاد ہونے کی حالت میں اس کی خوشبو سونگھے، جس سے دھواں اس کے حلق تک پہنچے تو اس کا روزہ ٹو ٹ جائےگا ، کیونکہ فقہائے کرام نے دھوئیں وغیرہ کے خود بخود داخل ہونے یا روزہ دار کے قصداً خود داخل کرنے میں بعض مقامات پر فرق کیا ہے کہ داخل کرنا، اس کا اپنا عمل ہے اس سے بچنا ممکن ہے۔ (مجمع الانھر ، 01،ص245،مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتےہیں: ”متون وشروح و فتاوٰی عامہ کتب مذہب میں جن پر مدارِ مذہب ہے علی الاطلاق تصریحات روشن ہیں کہ دُھواں یا غبار حلق یا دماغ میں آپ چلا جائے کہ روزہ دارنے بالقصد اسے داخل نہ کیا ہو تو روزہ نہ جائے گا ، اگر چہ اس وقت روزہ ہونا یاد تھا۔۔۔ہاں اگر صائم اپنے قصد وارادہ سے اگریا لوبان خواہ کسی شَے کا دُھواں یاغبار اپنے حلق یا دماغ میں عمدًا بے حالت نسیان صوم داخل کرے، مثلًا بخور سلگائے اور اسے اپنے جسم سے متصل کرکے دُھواں سُونگھے کہ دماغ یاحلق میں جائے تو اس صورت میں روزہ فاسد ہوگا۔ (فتاوی رضویہ،ج 10،ص 490 تا 492،رضا فاؤنڈیشن،لاھور )
پوچھی گئی صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا ، کیونکہ اصول یہ ہے کہ اگر دھواں یاگرد و غباروغیرہ خود بخود منہ میں داخل ہو جائے، توچونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں، لہٰذا اُس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔ ہاں ! اگر کوئی جان بوجھ اُسے سانس کے ساتھ کھینچے اور وہ حلق یا دماغ میں چلاجائے ، تو روزہ ٹوٹ جائے گا، جبکہ اُسے اپنا رازہ دار ہونا یاد ہو
مجمع الانہر میں ہے :” (وإن دخل في حلقه غبار أو دخان أو ذباب) وهو ذاكر لصومه (لا يفطر) والقياس أن يفطر لوصول المفطر إلى جوفه وإن كان لا يتغذى به وجه الاستحسان أنه لا يقدر على الامتناع عنه فإنه إذا أطبق الفم لا يستطاع الاحتراز عن الدخول من الأنف فصار كبلل تبقى في فيه بعد المضمضة وعلى هذا لو أدخل حلقه فسد صومه حتى إن من تبخر ببخور فاستشم دخانه فأدخله حلقه ذاكرا لصومه أفطر؛ لأنهم فرقوا بين الدخول والإدخال في مواضع عديدة،لأن الإدخال عمله والتحرز ممكن“ترجمہ:اور اگر حلق میں غبار ،دھواں یا مکھی چلی گئی اور اسے روزہ دار ہونا یاد ہو،تو بھی اس کا روزہ نہیں ٹوٹےگا ۔قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے گا، اگرچہ اس سے غذائیت حاصل نہیں ہوتی ،روزہ توڑنے والی چیز کے پیٹ میں پہنچنے کی وجہ سے۔اور استحسان یعنی روزہ نہ ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کو حلق میں داخل ہونے سے روکنے پر قادر نہیں ہے کہ جب وہ منہ بند کرےگا تو غبار اور دھوئیں وغیرہ کو ناک سے داخل ہونے سے نہیں روک سکے گا،تو یہ چیزیں کلی کرنے کے بعد منہ میں رہ جانے والی تری کی مانند ہیں ۔اور اس پر یہ مسئلہ ہے کہ اگر وہ ان چیزوں کو خود منہ میں داخل کرےگا ،تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا ،حتی کہ اگر کوئی لوبان سلگائے اورروزہ یاد ہونے کی حالت میں اس کی خوشبو سونگھے، جس سے دھواں اس کے حلق تک پہنچے تو اس کا روزہ ٹو ٹ جائےگا ،کیونکہ فقہائے کرام نے دھوئیں وغیرہ کے خود بخود داخل ہونے یا روزہ دار کے قصداًخود داخل کرنے میں بعض مقامات پر فرق کیا ہےکہ داخل کرنا ،اس کا اپنا عمل ہے اس سے بچنا ممکن ہے ۔ (مجمع الانھر ، 01،ص245،مطبوعہ داراحیاءالتراث العربی)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتےہیں:” متون وشروح و فتاوٰی عامہ کتب مذہب میں جن پر مدارِ مذہب ہے علی الاطلاق تصریحات روشن ہیں کہ دُھواں یا غبار حلق یا دماغ میں آپ چلا جائے کہ روزہ دارنے بالقصد اسے داخل نہ کیا ہو تو روزہ نہ جائے گا ، اگر چہ اس وقت روزہ ہونا یاد تھا۔۔۔ہاں اگر صائم اپنے قصد وارادہ سے اگریا لوبان خواہ کسی شَے کا دُھواں یاغبار اپنے حلق یا دماغ میں عمدًا بے حالت نسیان صوم داخل کرے، مثلًا بخور سلگائے اور اسے اپنے جسم سے متصل کرکے دُھواں سُونگھے کہ دماغ یاحلق میں جائے تو اس صورت میں روزہ فاسد ہوگا۔ (فتاوی رضویہ،ج 10،ص 490 تا 492،رضا فاؤنڈیشن،لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


