امام اعظم علیہ الرحمۃ حدیث کے بھی امام ہیں؟

امام اعظم علیہ الرحمۃ حدیث کے بھی امام ہیں؟

ریفرینس نمبر: 24

تاریخ اجراء:02 شعبان المعظم 1445 ھ بمطابق 13 فرورى 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

بعض لوگ کہتے ہیں کہ  امام اعظم ابو  حنیفہ  علیہ الرحمۃ کو تین / سترہ احادیث یاد تھیں۔ تو ایسے افراد کو کیا جواب دیا جائے گا اور علمِ حدیث میں  امام اعظم علیہ الرحمۃ کا کیا  مقام ہے،اسے بھی بیان فرما دیجئے  ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں جو بات بیان کی گئی ہے، بعض لوگ امام اعظم ابو حنیفہ   نعمان بن ثابت علیہ الرحمۃ  کے بغض میں ایسی باتیں مشہور کرتے ہیں، جبکہ تحقیق و حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین سے حدیث اخذ کی ہیں، آپ وہ پہلے امام تھے، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور یہ کام فنِ حدیث  میں کمال درجہ مہارت کے بغیر نہیں ہو سکتا، پھر  امام اعظم ابوحنیفہ  علیہ الرحمۃ کی تصانیف میں ذکر کردہ  ہزاروں  احادیث اور فقہ حنفی کے ہزاروں مسائل اور ان پر موجود  احادیث سے دلائل ، اس بات کا واضح  ثبوت ہیں کہ امام اعظم  ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ  کے قلب و دماغ میں احادیث مبارکہ کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ تھا ۔

چند حوالے پیشِ خدمت ہیں۔

امام یحییٰ بن نصر بن حاجب فرماتے ہیں:”دخلت علی ابی حنیفۃ فی بیت مملو کتبا فقلت ماھذہ ؟قال ھذہ احادیث کلھا، وما حدثت بہ الا یسیر الذی ینتفع بہ“ترجمہ:میں امام اعظم  ابوحنیفہ  علیہ الرحمۃ  کیے پاس ان کے گھر میں حاضر ہوا ،تو ان کا گھر کتابوں سے بھراہوا تھا۔میں نے عرض کیا :یہ کیا ہے؟فرمایا یہ ساری احادیث کی کتابیں  ہیں،  میں ان میں سے وہ بیان کرتاہوں ، جن سے عوام کونفع ہو۔   (مناقب ابی حنیفہ للنیسابوری ، ج1، ص151)

امام عبد اللہ بن فروخ فارسی مالکی  علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ  ایک دن میں امام اعظم ابو حنیفہ  علیہ الرحمۃ کے پاس  آپ کے گھر بیٹھا ہوا تھاکہ اچانک گھر کی چھت سے ایک اینٹ گری اور میرا سر زخمی ہو گیا۔ امام اعظم علیہ الرحمۃ  نے فرمایا:”اختر ان شئت ارش  الجرح  و ان شئت ثلثماۃ  حدیث ؟   فقلت : الحدیث  خیر لی ۔ فحدثنی ثلثماۃ حدیث“ اگر آپ چاہیں، تو میں آپ کو اس زخم کا خون بہا دے دوں  اورچاہیں ، تو میں آپ کو اس کے بدلے تین سو (300) احادیث  سنا دوں۔ تو میں  نے کہا : حدیث سننا  بہترین ہے۔ امام اعظم  علیہ الرحمۃ نے تین سو احادیث سنا دیں۔   (ریاض النفوس ، ص 181، دار الغرب الاسلامی بیروت)

علامہ ابن حجر ہیتمی مکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :”ذکر ہ الذھبی و غیرہ  فی طبقات الحفاظ من المحدثین“ترجمہ :امام ذہبی اور ان کے علاوہ  ائمہ نے  امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کو محدثین کے طبقہ ”حفاظ “میں ذکر کیا ہے۔    (الخیرات الحسان، ص68، مطبوعہ مصر)

امام ابو عبد اللہ حسین بن علی  الصیمری فرماتے ہیں: ”کان ابو حنیفۃ عارفا بحدیث  اھل الکوفۃ و فقہ اھل الکوفۃ  و کان حافظا لفعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاخیر الذی قبض علیہ مما وصل الی اھل بلدہ“ ترجمہ :امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ اہل کوفہ کی حدیث اور فقہ کو بخوبی جانتے تھے اورانہٰیں  (کسی بھی باب میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے آخری فعل یاد تھا ، جو ان کے شہر تک پہنچا۔   (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ، ص25، مطبوعہ بیروت)

اور سوال میں جو بات بیان کی گئی ہے،اس کی دلیل کے طور پر تاریخ ابن خلدون کی ایک ضعیف اور  کمزور روایت پیش کی جاتی ہے ، وہ عبارت اور اس پر اپنا تبصرہ  ہم  درج کرتے ہیں۔

تاریخ ابن خلدون میں ہے:”یقال بلغت روایتہ  الی سبعۃ عشر حدیثا او نحوھا“ترجمہ :کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی روایات (مرویات) سترہ تک یا اس جیسی مقدار تک پہنچیں۔   (تاریخ ابن  خلدون ، ص561 ، مطبوعہ بیروت)

تبصرہ:  (1)اس عبارت سے فقط اتنا ثابت ہو سکتا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کی روایات کی تعداد 17 یا اس کے ارد گرد مقدار تک ہے ، لیکن اس سے یہ تو کسی صورت ثابت نہیں ہو رہا ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ کو سترہ احادیث یاد تھیں مثلاً کئی صحابہ ایسے ہیں کہ جن سے روایات احادیث کی کتب میں منقول و مروی نہیں یا ہیں، تو بہت کم تعداد میں ہیں، بالخصوص حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد بھی کم ہے ، لیکن اس سے کون یہ استدلال کر سکتا ہے کہ ان کو احادیث یاد ہی نہیں تھیں یا یاد تھیں، تو اتنی ہی یاد تھیں کہ جتنی ان سے نقل کی گئی ہیں۔ یقیناً ایسا استدلال کرنے والا بیوقوف  یا خائن یا علم سے جاہل ہی ہو گا۔ ایسے ہی یہاں بھی ہے کہ امام اعظم علیہ الرحمۃ  کی مرویات کی تعداد پہ بات ہو رہی ہے ، نہ کہ یہ بات ہو رہی ہے کہ انہیں یاد ہی اتنی روایات تھیں۔

(2)پھر یہ روایت  صیغہ تمریض ”یقال“ کے ساتھ  نقل کی گئی ہے ۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ایک بات کہی جاتی ہے، لیکن ایسا نہیں کہ تحقیقی کے معیار میں وہ بات  قابلِ قبول بھی  ہو  اور نہ ہی علامہ ابن خلدون نے اس  قول کے صحیح ہونے  کا دعوی کیا ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ صیغہ تمریض کے ساتھ نقل کی گئی بات  کو بغیر کسی قوی مؤید کے قبول نہیں کیا جا سکتا، جبکہ یہاں تو اس کے خلاف دلائل موجود ہیں۔

نوٹ :کسی روایت  کمزوری و ضعف کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جو الفاظ  استعمال کئے  جاتے ہیں، انہیں” صیغہ تمریض“ کہا جاتا ہے جیسے قیل یقال وغیرہ  یعنی کہا گیا یا کہاجاتا ہے وغیرہ

(3)اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ قول ان کے نزدیک درست بھی تھا، تب بھی دیگر شواہد موجود ہیں  جن سے امام اعظم علیہ الرحمۃ کا عظیم محدث ، بلکہ حافظ الحدیث ہونا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ اوپر دلائل میں گزرا۔

(4)پھر یہ نقل کے اعتبار سے کمزرو و ضعیف اور خلافِ حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ عقلاً بھی  بعید و مردود ہے، اس وجہ سے کہ  ایک عام سا آدمی بھی دس پندرہ احادیث کا حافظ ہوتا ہے، تو ایک ایسے امام کے بارے میں کہ  جن کا شمار اجلہ  تابعین میں   ہو اور  جنہیں سارا زمانہ امام اعظم کہتا ہو،   ہزاروں مسائل شرعیہ کاقرآن و  حدیث سے اخذ  و استنباط کیا ہو، تو یہ کیسے مان  لیا جائے کہ   ہزاروں مسائل شرعیہ کو قرآن و حدیث سے نکالنے والی شخصیت کو  صرف سترہ احادیث یاد تھیں اور پھر جسے صرف  سترہ احادیث یاد ہوں، تو یہ کیسے متصور ہو سکتا ہے کہ    بڑے بڑے ائمہ جرح و تعدیل اس کی تعریف کے پل باند ھیں ، بلکہ اسے حفاظ ِحدیث میں  شمار کریں۔ تو ماننا پڑے گا کہ یہ اعتراض ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔

اس تحریر میں ہم نے مختصر انداز سے بیان کردیا کہ  امام اعظم  ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ    احادیث مبارکہ پر گہری نگاہ اور کمال درجے کا علم رکھتے تھے  ۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم