اذانِ جمعہ کے بعد خرید و فروخت وغیرہ کا حکم ؟
ریفرینس نمبر: 28
تاریخ اجراء:19 شعبان المعظم 1445 ھ بمطابق 01 فرورى 2024 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
جب جمعہ کی پہلی اذان ہو جائے، تو کئی لوگ دکانوں پہ خرید و فروخت میں مصروف ہوتے ہیں یا کئی لوگ مسجد کے باہر کسی اور کام میں مشغول رہتے ہیں، ان کا ایسا کرنا کیسا ہے اور ان کے لیے کیا حکم ہے ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جمعہ کی پہلی اذان ہوتے ہی جمعہ کی سعی یعنی جمعہ کی تیاری لازم ہوجاتی ہے اور کوئی بھی ایسا کام کرنا کہ جو سعئ جمعہ (جمعہ کی تیاری اور حاضری) سے مانع (رکاوٹ) ہو، شرعاً ناجائز اور گناہ ہے ، لہٰذا جس پر جمعہ لازم ہو ، اُسے جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خرید و فروخت کرنا یا سعئ جمعہ کے علاوہ کسی اور کام میں مشغولیت اختیار کرنا، جائز نہیں ہے ۔
زوال کے بعد جب جمعہ کی اذانِ اوّل ہو جائے، تو اس کے بعد خریدو فروخت یا کوئی بھی ایسا کام کرنا کہ جو سعئ جمعہ (جمعہ کی تیاری اور حاضری) سے مانع (رکاوٹ) ہو، شرعاً ناجائز اور گناہ ہے۔اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ط ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن،تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ (پ28،س الجمعۃ،آیت9)
اس آیت مبارکہ کےتحت تفسیرات احمدیہ میں ہے:”﴿اذا نودی﴾ انما ھو النداءالاول الذی ثبت باجماع العلماءلا النداء الثانی الذی یتصل بقراءة الخطبة، فالسعی لذکر اللہ وترک البیع یجبان بالاذان الاول وھو القول الاصح من مذھب ابی حنیفة“ ترجمہ: (جب اذان دی جائے) یہ اذان اول ہے،جو اجماع علماءسےثابت ہے،نہ کہ اذانِ ثانی، جوخطبہ پڑھنےسےمتصل ہوتی ہے، پس اللہ تعالیٰ کےذکر کی طرف دوڑنااورخرید و فروخت چھوڑدینا اذانِ اول کے ساتھ ہی واجب ہو جاتا ہے اور مذہب امام ابو حنیفہ میں یہ قول اصح ہے۔ (تفسیرات احمدیہ، ص 705، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
نیز اس آیت کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے:’’ اذان سے مراد اذانِ اوّل ہے نہ اذانِ ثانی جو خطبہ سے متصل ہوتی ہے اگرچہ اذانِ اوّل زمانۂِ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اضافہ کی گئی مگر وجوبِ سعی اور ترکِ بیع و شراء اسی سے متعلق ہے۔ دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کےلئے تیاری شروع کردو ۔“ (تفسیرِ خزائن العرفان ،تحت ھذہ الاٰیہ)
امدادالفتاح میں ہے:”( ویجب السعی للجمعة وترک البیع بالاذان الاول) الواقع بعد الزوال (فی الاصح) لحصول الاعلام بہ کما قال الحسن لانہ لو انتظر الاذان عند المنبر یفوتہ اداءالسنة وسماع الخطبة وربما تفوتہ الجمعة لبعدہ عن الجامع“ ترجمہ:اذانِ اول کہ جو زوال کے بعد ہوتی ہے، اس سے جمعہ کے لیے سعی کرنا اور خرید و فروخت ترک کرنا اصح قول کے مطابق واجب ہے کہ اسی سے جمعہ کا اعلان ہو جاتا ہے جیسا کہ حسن بن زیاد نے فرمایا اور اس لیے کہ اگر منبر کے قریب ہونے والی اذان ثانی کا انتظار کرے گا، تو سنتوں کی ادائیگی اور خطبہ سننے سے محروم ہو جائے گا اورکبھی ہو سکتا ہے کہ جامع مسجد دور ہونے کی صورت میں جمعہ ہی فوت ہوجائے۔ (امداد الفتاح شرح نور الایضاح، ص567، مکتبہ رشیدیہ، کوئٹہ)
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”اذانِ جمعہ کے شروع سے ختمِ نماز تک بیع مکروہ تحریمی ہے اور اذان سے مراد پہلی اذان ہے کہ اُسی وقت سعی واجب ہوجاتی ہے مگر وہ لوگ جن پرجمعہ واجب نہیں مثلاً عورتیں یا مریض اُن کی بیع میں کراہت نہیں۔ (بھارِ شریعت، ج 2، حصہ11، ص723، مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


