عورتوں کی جماعت کا حکم ؟

عورتوں کی جماعت کا حکم

ریفرینس نمبر: 38

تاریخ اجراء:08 رمضان المبارک 1445 ھ بمطابق 19 مارچ 2024 ء

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

 چند عورتیں صلوٰۃ التسبیح یا تراویح کی ادائیگی کے لیے کسی جگہ اکٹھی ہوں، ایک عورت جماعت کروائے اور بقیہ اس کے پیچھے نماز ادا کریں۔ ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فرض ،واجب، سنت  یا نفل کسی نمازمیں بھی عورت کاامامت کروانا مکروہِ تحریمی و ناجائز و گناہ ہے،چاہےامامت کروانے والی عورت سب عورتوں کے ساتھ کھڑی ہویا آگے کھڑی ہو اور آگےکھڑی ہوگی،تودوہری (ڈبل) کراہت ہوگی۔ کسی بھی نماز میں عورت  مردوں کی امامت کروائے یا کوئی عورت عورتوں کی امامت کروائے، بہر صورت  یہ ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں صلوٰۃ التسبیح یا تراویح وغیرہ نمازوں میں جو رواج پڑ چکا ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی امامت کرواتی ہے،یہ  ناجائز و گناہ ہے اور  اس سے اجتناب (بچنا) لازم ہے۔

دلائل ملاحظہ فرمائیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا تؤمن امراۃ رجلا“  ترجمہ :کوئی عورت ہر گز مردوں کی امامت  نہ کرے۔   (صحیح مسلم، ج1، ص343، رقم الحدیث1081، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی مسجد او فی جنازۃ قتیل“  ترجمہ: عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے، مگر یہ کہ مسجد کی جماعت  میں  شریک ہوں یا شہید کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔   (مسند احمد، ج40،ص473، رقم الحدیث24375، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

نوٹ :  عورتوں کے لیے مسجدمیں پنجگانہ نمازوں اور نمازِ جنازہ کی حاضری  بعد میں ممنوع ہو گئی۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”لا تؤم المراۃ“ ترجمہ: عورت امامت نہیں کر سکتی۔   (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1،ص430، رقم الحدیث4957، مکتبۃ الرشد ، الریاض)

تنویرالابصارمع الدرمیں ہے: ’’(و)یکرہ تحریما(جماعۃالنساء)ولوالتراویح‘‘ ترجمہ: اورعورتوں کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے، اگرچہ نمازِ تراویح ہو۔   (تنویر الابصارمع الدر، ج2، ص365، مکتبہ حقانیہ، پشاور)

جوہرہ نیرہ میں ہے: ’’(یکرہ للنساءان یصلین وحدھن جماعۃ)یعنی بغیر رجال وسواءفی ذالک الفرائض والنوافل والتراویح‘‘ ترجمہ: عورتوں کے لئےمکروہ (تحریمی) ہےکہ وہ اکٹھی  ہوکرجماعت سےنماز پڑھیں یعنی مردوں کےبغیر (کہ سب عورتیں ہوں اور عورت ہی جماعت کروائے) اور اس حکمِ کراہت میں فرائض و نوافل اور تراویح ،سب برابرہیں۔   (الجوھرۃ النیرۃ،ج1،ص71،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

مفتئ اعظم ہند محمد مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ سےعورتوں کی تراویح کی جماعت کےبارے میں سوال ہوا،تو آپ علیہ الرحمۃنے جواباً ارشاد فرمایا:’’عورتوں کو جماعت کاحکم فرض میں نہیں،نفل تو نفل ہے،عورتوں کی جماعت مکروہ (تحریمی) ہےاوراگر کریں، تو ان میں جو امام بنے،وہ ان کے وسط میں کھڑی ہو،مردوں کےامام کی طرح آگے نہ کھڑی ہو،فرض میں بھی یوں ہی تراویح میں بھی کہ اس میں ان کی امام آگے کھڑی ہو،کراہت دوہری ہوجائےگی اور امام دوہری گناہگار۔‘‘    (فتاوی مصطفویہ،ص213،شبیر برادرز،لاھور)

تنبیہ :بعض روایات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق  منقول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت فرماتی تھیں، لیکن اس کے بارے میں علمائے کرام نے دو توجیہات بیان فرمائی ہیں: (1) یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب عورتوں کو  جماعت  کی حاضری کی اجازت تھی، جب عورتوں کو جماعت کی حاضری  سے منع کر دیا گیا، تو یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا۔(2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل  عورتوں کو نماز سکھانے کی غرض سے ہوتا تھا یعنی آپ رضی اللہ عنہا حقیقتاً نماز ادا نہیں فرماتی تھیں، بلکہ صرف عورتوں کو سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز کے افعال بجا لاتی تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے:” انها كانت  تؤذن  وتقيم  وتؤم النساء وتقوم وسطهن “ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اذان و اقامت کہتیں اور عورتوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر ان کی امامت کرواتیں ۔   (المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص307، دار الحرمین، مصر)

علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:” إنه منسوخ وفعلت ذلك حين كانت النساء تحضرن الجماعات ثم نُسخت جماعتهن “ ترجمہ: یہ منسوخ ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت ایسا کرتی تھیں کہ جب عورتیں جماعت کے لیے حاضر ہوتی تھیں ، پھر ان کی جماعت کو منسوخ کر دیا گیا۔     (شرح ابی داؤد للعینی، ج3، ص97، مکتبۃ الرشد، الریاض)

امام قدوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” ويجوز أن يكن فعلن ذلك على طريق التعليم “ترجمہ: جن صحابیات سے عورتوں کی جماعت میں امامت  کروانا  مروی ہے، اس کی  ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ  اُن  کا یہ فعل عورتوں کو نماز  سکھانے کے لیے تھا۔   (التجرید للقدوری، ج2، ص862، دار السلام، القاھرہ)

فرض ،واجب، سنت  یا نفل کسی نمازمیں بھی عورت کاامامت کروانا مکروہِ تحریمی و ناجائز و گناہ ہے،چاہےامامت کروانے والی عورت سب عورتوں کے ساتھ کھڑی ہویا آگے کھڑی ہو اور آگےکھڑی ہوگی،تودوہری (ڈبل) کراہت ہوگی۔ کسی بھی نماز میں عورت  مردوں کی امامت کروائے یا کوئی عورت عورتوں کی امامت کروائے، بہر صورت  یہ ناجائز و گناہ ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں صلوٰۃ التسبیح یا تراویح وغیرہ نمازوں میں جو رواج پڑ چکا ہے کہ ایک عورت دوسری عورتوں کی امامت کرواتی ہے،یہ  ناجائز و گناہ ہے اور  اس سے اجتناب (بچنا) لازم ہے۔

دلائل ملاحظہ فرمائیں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا تؤمن امراۃ رجلا“  ترجمہ :کوئی عورت ہر گز مردوں کی امامت  نہ کرے۔                                                                                                                                  (صحیح مسلم، ج1، ص343، رقم الحدیث1081، دار احیاء الکتب العربیۃ، بیروت)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی مسجد او فی جنازۃ قتیل“  ترجمہ: عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے، مگر یہ کہ مسجد کی جماعت  میں  شریک ہوں یا شہید کی نماز جنازہ میں شریک ہوں۔                                                                                                                                                        (مسند احمد، ج40،ص473، رقم الحدیث24375، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)

نوٹ :  عورتوں کے لیے مسجدمیں پنجگانہ نمازوں اور نمازِ جنازہ کی حاضری  بعد میں ممنوع ہو گئی۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”لا تؤم المراۃ“ ترجمہ: عورت امامت نہیں کر سکتی۔                                                                                                                                                                                            (مصنف ابن ابی شیبہ، ج1،ص430، رقم الحدیث4957، مکتبۃ الرشد ، الریاض)

تنویرالابصارمع الدرمیں ہے: ’’(و)یکرہ تحریما(جماعۃالنساء)ولوالتراویح‘‘ ترجمہ: اورعورتوں کی جماعت مکروہِ تحریمی ہے، اگرچہ نمازِ تراویح ہو۔                                                                          (تنویرالابصارمع الدر،ج2،ص365،مکتبہ حقانیہ،پشار)

جوہرہ نیرہ میں ہے: ’’(یکرہ للنساءان یصلین وحدھن جماعۃ)یعنی بغیر رجال وسواءفی ذالک الفرائض والنوافل والتراویح‘‘ ترجمہ: عورتوں کے لئےمکروہ (تحریمی) ہےکہ وہ اکٹھی  ہوکرجماعت سےنماز پڑھیں یعنی مردوں کےبغیر (کہ سب عورتیں ہوں اور عورت ہی جماعت کروائے) اور اس حکمِ کراہت میں فرائض و نوافل اور تراویح ،سب برابرہیں۔   (الجوھرۃ النیرۃ،ج1،ص71،قدیمی کتب خانہ،کراچی)

مفتئ اعظم ہند محمد مصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ سےعورتوں کی تراویح کی جماعت کےبارے میں سوال ہوا،تو آپ علیہ الرحمۃنے جواباً ارشاد فرمایا:’’عورتوں کو جماعت کاحکم فرض میں نہیں،نفل تو نفل ہے،عورتوں کی جماعت مکروہ (تحریمی)ہےاوراگرکریں،توان میں جو امام بنے،وہ ان کے وسط میں کھڑی ہو،مردوں کےامام کی طرح آگے نہ کھڑی ہو،فرض میں بھی یوں ہی تراویح میں بھی کہ اس میں ان کی امام آگے کھڑی ہو،کراہت دوہری ہوجائےگی اور امام دوہری گناہگار۔‘‘                                                                                        (فتاوی مصطفویہ،ص213،شبیر برادرز،لاھور)

تنبیہ :بعض روایات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے متعلق  منقول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت فرماتی تھیں، لیکن اس کے بارے میں علمائے کرام نے دو توجیہات بیان فرمائی ہیں: (1) یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب عورتوں کو  جماعت  کی حاضری کی اجازت تھی، جب عورتوں کو جماعت کی حاضری  سے منع کر دیا گیا، تو یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا۔(2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل  عورتوں کو نماز سکھانے کی غرض سے ہوتا تھا یعنی آپ رضی اللہ عنہا حقیقتاً نماز ادا نہیں فرماتی تھیں، بلکہ صرف عورتوں کو سکھانے کے لیے ان کے سامنے نماز کے افعال بجا لاتی تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے:” انها كانت  تؤذن  وتقيم  وتؤم النساء وتقوم وسطهن “ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اذان و اقامت کہتیں اور عورتوں کے بیچ میں کھڑے ہو کر ان کی امامت کرواتیں ۔   (المستدرک علی الصحیحین، ج1، ص307، دار الحرمین، مصر)

علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:” إنه منسوخ وفعلت ذلك حين كانت النساء تحضرن الجماعات ثم نُسخت جماعتهن “ ترجمہ: یہ منسوخ ہے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس وقت ایسا کرتی تھیں کہ جب عورتیں جماعت کے لیے حاضر ہوتی تھیں ، پھر ان کی جماعت کو منسوخ کر دیا گیا۔     (شرح ابی داؤد للعینی، ج3، ص97، مکتبۃ الرشد، الریاض)

امام قدوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” ويجوز أن يكن فعلن ذلك على طريق التعليم “ترجمہ: جن صحابیات سے عورتوں کی جماعت میں امامت  کروانا  مروی ہے، اس کی  ایک توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ  اُن  کا یہ فعل عورتوں کو نماز  سکھانے کے لیے تھا۔   (التجرید للقدوری، ج2، ص862، دار السلام، القاھرہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم