خواتین کا تراویح کی جماعت میں شرکت کرنا ؟

خواتین کا تراویح کی جماعت میں شرکت کرنا

ریفرینس نمبر: 74

مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه

شعبہ الافتاء و التحقیق

(جامعہ عطر العلوم)

سوال

کیاعورتیں مسجد یا مسجد سے متصل کسی جگہ جا کر امام مسجد کے پیچھے نمازِ تراویح ادا کر سکتی ہیں  ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

خواتین  کے لئے تراویح یااس کے علاوہ کسی بھی نماز (خواہ پنجگانہ نمازیں ہوں  یا نمازِ جمعہ یا عیدین ، صلاۃ التسبیح وغیرہ ، اُس)  کی جماعت کے لیے گھر سے نکلنا شرعاً  اجازت نہیں ہے ، خواہ یہ جماعت مسجد میں ہو یا مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ ہو۔

حضرت  سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے کی عورتوں کے بدلتے احوال کو دیکھتے ہوئے سدا للباب (فتنے کا دروازہ بند کرنے کے لئے) جماعت میں شرکت کرنے سے منع فرما دیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی  موجودگی جاری فرمایا ، کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی تائید و تصدیق فرمائی ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ”لو ادرک رسول ﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل“ ترجمہ : جو باتیں عورتوں نے اب پیدا کر لی ہیں، اگر یہ نبی  پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ملاحظہ فرماتے ، تو ضرور انہیں مسجد سے منع فرمادیتے،  جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کردی گئیں۔   (صحیح بخاری،حدیث  نمبر : 869)

علامہ بدرالدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”ولهذا منع أبو حنيفة العجائز أيضاً عن الخروج إلى الظهرين لذلك المعنى. على أنه قد روي عن عائشة رضي اللہ عنها  قالت: ‌لو ‌أدرك ‌رسول ‌اللہ ما أحدث النساء لمنعهن المسجد (الحديث)  ،  لما يجئ الآن، والفتوى في هذا الزمان على عدم الخروج في حق الكل مطلقا، لشيوع الفساد، وعموم المصيبة “ ترجمہ : اسی وجہ  سے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ نے بوڑھی عورتوں کو بھی ظہرین یعنی دن کی نمازوں میں گھر سے نکلنے سے منع کیا ہے ، اس پر دلیل یہی حضرت سیدہ  عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایت ہے کہ جو کچھ ان عورتوں میں ظاہر ہو چکا ہے ، اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ وسلم یہ دیکھ لیتے ، تو ضرور حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم بھی انہیں منع فرما دیتے ۔ جیساکہ یہ روایت آگے آئے گی اور فی زمانہ فتویٰ اسی بات پر ہے کہ تمام عورتوں (خواہ جوان ہوں یا بوڑھی، انہیں) نماز کے لیے گھروں سے  نکلنے کی اجازت نہیں ، اس ئے کہ  فتنہ و فساد عام ہے ۔   (شرح سنن ابی داؤد للعینی ، کتاب الصلاۃ ، جلد 3 ، صفحہ 51 ، مطبوعہ الریاض )

تنویر الابصار و درمختار میں ہے: ”(‌ويكره ‌حضورهن ‌الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان“  ترجمہ : اور عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا مفتیٰ بہ مذہب کے مطابق فسادِ زمانہ کی وجہ سے مطلقاً مکروہ (تحریمی) ہے ، اگرچہ نمازِ جمعہ وعیدین یا مجلسِ وعظ ہی ہو ، اگرچہ عورتیں بوڑھی ہوں ، اگرچہ رات کی نمازیں ہوں۔   (تنویر الابصار و درمختار ،  جلد 2، صفحہ 367 ، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم