بیس رکعتوں سے کم تراویح پڑھنے کا حکم
ریفرینس نمبر: 83
تاریخ اجراء:09 رمضان المبارک 1446 ھ بمطابق 10 مارچ 2025 ء
مجیب: ابو ثوبان محمد خاقان قادرى عفى عنه
شعبہ الافتاء و التحقیق
(جامعہ عطر العلوم)
سوال
آٹھ رکعت تراویح پڑھنے سے تراویح کی سنت ادا ہو جائے گی یا نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ تراویح کی بیس رکعتیں ادا کی جائیں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بھی بیس رکعت تروایح پڑھنا ثابت ہے ، لہٰذا اگر کوئی آٹھ رکعت ادا کرے گا / بیس رکعت سے کم ادا کرے گا ، تو اس کی تراویح کی سنت ادا نہیں ہو گی ، اسے حکم ہو گا کہ بیس رکعات مکمل کرے نیز بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ، جس کو ایک آدھ بار ترک کرنا اساءت (برا) ہے اور ترک کی عادت بنا لینا گناہ ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعۃ والوتر“ ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رمضان المبارک میں (تراویح کی) بیس رکعتیں اور وتر ادا فرماتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 2 ، ص 164 ، الرقم : 7692 ، دارالتاج ، لبنان)
کنز العمال میں ہے : ”عن أبي بن كعب أن عمر بن الخطاب أمره أن يصلي بالليل في رمضان فقال: إن الناس يصومون النهار ولا يحسنون أن يقرأوا فلو قرأت عليهم بالليل، فقال: يا أمير المؤمنين هذا شيء لم يكن، فقال: قد علمت ولكنه حسن فصلى بهم عشرين ركعة “ ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں۔ (چنانچہ) فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قرات اچھی طرح نہیں کر سکتے۔ کاش آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں ، تو انہوں نے کہا : کہ اے امیر المؤمنین ! یہ ایسی چیز ہو گی،جو پہلے رائج نہ ہوئی ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :مجھے معلوم ہے ، لیکن یہ اچھا کام ہے ، تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں بیس رکعتیں پڑھائیں۔ (کنز العمال ،ج 8 ، ص 409 ،الرقم:23471، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
مجمع الانہر میں ہے”( التراويح سنة مؤكدة) للرجال والنساء جميعا ( في كل ليلة من رمضان بعد العشاء ۔۔۔۔ عشرون ركعة)“ ترجمہ: رمضان المبارک کی ہر رات میں عشاء کے بعد تراویح کی نماز بیس رکعت ، مرد و عورت سب کے لئے سنت مؤکدہ ہے ۔ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر، کتاب الصلاۃ، فصل فی التراویح، ج 1، ص135، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
امامِ اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن تراویح چھوڑنے کا حکم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے تین شب تراویح میں امامت فرما کر بخوفِ فرضیت ترک فرما دی ، تو اس وقت تک وہ سنت مؤکدہ نہ ہوئی تھی، جب امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے اِجرا (جاری) فرمایا اور عامہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس پر مجتمع ہوئے ، اس وقت سے وہ سنت مؤکدہ ہوئی ، نہ فقط فعلِ امیر المؤمنین سے ، بلکہ ارشاداتِ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ و سلم سے ۔۔۔۔ اب ان کا تارک ضرور تارکِ سنتِ مؤکدہ ہے اور ترک کا عادی فاسق و عاصی (گنہگار ہے) ۔ (فتاوی رضویہ، ج7، ص 471، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


